کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 696
﴿فَقَالُوا أَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُهُ إِنَّا إِذًا لَّفِي ضَلَالٍ وَسُعُرٍ ﴿٢٤﴾ أَأُلْقِيَ الذِّكْرُ عَلَيْهِ مِن بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ أَشِرٌ[1] (سوره قمر) ’’کیا ہم اپنے ایک ہم جنس کی اطاعت کریں، یہ تو عقل و شعور کے خلاف ہے۔ کیا ہمارے ہوتے اس کو نبوت مل جائے، یہ جھوٹ اور شرارت پسندی کی بات ہو گی۔‘‘ توحید اور نبوت ایسے مسائل اس وقت کی فقہ و درایت پر گراں گزر رہے تھے۔ انبیاء علیہم السلام کی تعلیم اور ان کا انتخاب دونوں ان کے لیے تعجب کا موجب تھا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے جب ذات حق کی معرفت اور حقوق العباد کے تحفظ کے متعلق اپنی قوم سے خطاب فرمایا اور ان کو ان معاصی سے روکا، تو اس وقت کے دانش مند اور دولت مند لوگوں نے بڑی معصومیت سے جواب دیا: ﴿أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ[2] (سوره هود) ’’کیا تمہاری نماز کا یہی مطلب ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی عادات کو چھوڑ دیں اور اپنے مالوں میں حسب منشا لین دین نہ کریں۔‘‘ آسمانی احکام اور انبیاء علیہم السلام کی راہ میں وقت کے دانشمندوں کا انداز فکر و درایت ہمیشہ حائل رہی۔ قیاس، درایتِ قدیمہ، تفقہ، فقہ راوی، درایت جدیدہ، استحسان، استصحاب حال، مصالح مرسلہ، یہ ایسی اصطلاحات ہیں کہ ان کی افادیت کے ساتھ قرآن اور سنت کے فیصلوں کو مسترد کرنے کے لیے چور دروازوں کا استعمال ہمیشہ کیا گیا۔ ائمہ سنت کو تقلید، حشویت اور حرفیت کے طعن دے کر امت پر تاویل کی راہ کھول دی گئی۔ ان فسادات میں فقہاء اور حکام برابر کے شریک ہوئے۔ ہزاروں ائمہ دین قتل کیے گئے اور سینکڑوں جیل خانوں کی تاریکیوں میں سالہا سال تک داد صبر دیتے رہے۔ علماءِ حدیث ہی سب سے زیادہ مبتلائے مصائب رہے۔ وقت کی ستم ظریفیاں ملاحظہ فرمائیے کہ اس دور کے دانشمند اور درایت پرور بشر مریسی اور اس قماش کے لوگ محقق اور مجتہد سمجھے جاتے تھے اور امام ابو یوسف، امام ابو حنیفہ، امام احمد، امام مالک، امام شافعی اور تمام ائمہ سنت اور حفاظ حدیث کو
[1] سورة القمر(23 تا 25) [2] سوره هود (87)