کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 695
برتری اور تفوق ثابت کرنے کی سعی کی ہے۔ آج کل کے دیوبندی لٹریچر میں اس درایت کا تذکرہ بڑی کثرت سے ہوتا ہے اور یہ حضرات نہیں جانتے کہ یہ درایت انکار حدیث اور انکار معجزات کے لیے چور دروازہ ہے۔ ائمہ سنت اور ان کے اتباع سے کسی نے بھی اس درایت کا تذکرہ نہیں فرمایا اور اشارات کھینچ تان کر پیدا کیے گئے ہیں۔ وہ قانون اور اصل کے طور پر نہیں، بلکہ ضمنی اور وقتی تذکرہ ہے اور بس۔۔!
حسن البیان اور حسن البیان والے:
زیر نظر دور کی دوسری کتابیں جو علماءِ اہل حدیث کے قلم سے نکلیں یا محقق دیوبندی علماء نے لکھی ہیں، ان سب میں اس درایت پر تنقید فرمائی گئی اور اسے ناپسند کیا گیا اور انکار حدیث کے کھٹکے کا اظہار کیا گیا۔ (ملاحظہ ہو: ’’أصح السير‘‘ مولانا عبدالرؤف دانا پوری، سیرت بخاری مولانا مبارک پوری، الارشاد مولانا حکیم ابو یحییٰ شاہجہان پوری اور بحر زخار وغیرہ) ان سب بزرگوں نے اس درایت کے خطرات کو محسوس فرمایا اور یہ حسن البیان آپ کے سامنے ہے اور اس کے مباحث آپ کی نظر میں۔ کتاب کے بعض مباحث میں اختصار کی وجہ سے ممکن ہے وقتی طور پر تشنگی محسوس ہو اور بعض مقامات میں مناظرانہ تنقید کا انداز بھی آ گیا ہے، مگر ’’سيرة النعمان‘‘ میں جو انداز علامہ مرحوم نے اختیار فرمایا، یہ تقابل ایک طبعی امر تھا، تاہم درایت اور فقہ راوی سے جو خطرہ محسوس کیا، وہ بالکل صحیح تھا۔ شبلی صاحب نے ائمہ حدیث کے متعلق جو تصور پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، مستحسن نہ تھی، اس لیے فن حدیث کے ساتھ عقیدت مندانہ وابستگی رکھنے والوں کا اسے برداشت کرنا آسان نہیں تھا۔ تفقہ، فقہ راوی، استحسان، استصحاب حال وغیرہ مصطلحات اصل سنت کے ذخائر پر بے اعتمادی کی مختلف تعبیرات ہیں۔ قرآن عزیز میں انبیاء علیہم السلام کی تاریخ کا جس طرح ذکر فرمایا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ارباب فقہ و درایت ان ہی ہتھیاروں سے آسمانی ہدایات کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور انبیاء علیہم السلام کی اساسی تعلیمات پر تعجب کا اظہار کرتے رہے ہیں:
﴿أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ﴾ [1] (سوره ص)
’’اتنے آلہہ کی جگہ ایک الٰہ عجیب ہے۔ فقہ و درایت، عقل و دانش اسے قبول کرنے سے ابا کرتے ہیں۔‘‘
[1] سوره ص (5)