کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 694
(1) رمضان المبارک میں بھول کر کھا پی لینا۔ قیاس چاہتا ہے کہ روزہ ٹوٹ جائے۔ امام صاحب نے فرمایا کہ نہیں ٹوٹتا، کیونکہ احادیث میں آیا ہے۔ [1] (مناقب امام اعظم رحمه اللّٰه ضميمه الجواهر المضيئة، ص: 74)
(2) امام صاحب رحمہ اللہ کا خیال تھا کہ انگلیوں کی دیت کم و بیش ہے، قیاس کا یہی تقاضا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ انگلیاں برابر ہیں۔ [2]
(3) قیاس کی بنا پر امام صاحب کا خیال تھا کہ حیض زیادہ سے زیادہ پندرہ دن ہو سکتا ہے۔ جب امام صاحب کو معلوم ہوا کہ حدیث اس کے خلاف ہے، تو امام کے نزدیک حیض کی آخری معیاد دس دن رہ گئی۔ [3]
(4) امام صاحب عید کے پس و پیش نوافل پسند نہیں کرتے تھے۔ جب آپ کو معلوم ہوا کہ حضرت علی گھر پر نوافل پڑھتے تھے، تو امام صاحب نے رجوع فرما لیا۔ [4]
متذکرہ مسائل مولانا شبلی مرحوم کی ’’درایت‘‘ کے یقیناً خلاف ہیں۔ قرائن کے مقتضیات میں زیادہ تر قیاس ہی کار فرما ہے اور پھر قیاس تو ائمہ اربعہ اور ائمہ حدیث کے نزدیک شرعی حجت ہے۔ اس کے لیے اہل علم کے نزدیک کچھ اصول و ضوابط ہیں، اور جس درایت کا ذکر مولانا شبلی فرماتے ہیں، اس کا ذکر احناف، شوافع، موالک، حنابلہ کسی نے بھی نہیں فرمایا۔ اس کا ذہن یا تصور سرسید احمد خاں نے دیا، الفاظ علامہ شبلی مرحوم نے دیے۔ کم فہم اور نو آموز علماء نے صرف اس لیے اپنا لیا کہ مولانا شبلی نعمانی نے اس درایت کا ذکر ائمہ حدیث کی تنقیص میں کیا ہے اور فقہاء حنفیہ کی جس سے (بظاہر)
[1] دیکھیں: صحيح البخاري، برقم (1831) صحيح مسلم، برقم (1155)
[2] صحيح البخاري: كتاب الديات، باب دية الأصابع، رقم الحديث (2500) نیز دیکھیں: فتح الباري (12/225) المغني لابن قدامة (9/632)
[3] دیکھیں: بدائع الصنائع للكاساني (1/155)
[4] نماز عید کے بعد عید گاہ میں نوافل پڑھنا ثابت نہیں ہے، لیکن نماز عید کے بعد گھر پر نفل نماز پڑھنا درست ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید سے قبل کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے، لیکن جب واپس گھر جاتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے۔ سنن ابن ماجه، برقم (1293) مسند أحمد (3/36) مستدرك حاكم (1/297) اس حدیث کی سند کو حافظ ابن ملقن، ابن حجر، بوصیری، سیوطی، زرقانی اور البانی رحمہم اللہ نے ’’حسن‘‘ اور امام حاکم اور ذہبی رحمہم اللہ نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔