کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 693
کی مقدار غیر منصوص ہے، پھر نجاست اور طہارت کا فیصلہ روایت کے خلاف ہو گا۔
(2) تالاب اور کنویں میں نجاست کے لحاظ سے جو فرق کیا گیا ہے، بالکل درایت کے خلاف ہے۔ کیا برتن کی ہئیت کو بھی طہارت اور نجاست میں دخل ہے؟ یعنی برتن گول اور گہرا ہو، تو ٹنوں پانی ادنیٰ نجاست سے پلید ہو جائے اور برتن طویل اور عریض ہو، تو وقوع نجاست سے رنگ، بو اور مزہ کے بدلنے کا انتظار کیا جائے۔ یہ تفریق قطعاً خلافِ درایت ہے۔ حکم نجاست پانی کی مقدار پر ہونا چاہیے، برتن کی وضع کیسی کیوں نہ ہو۔
(3) پھر تطہیر کے لیے ڈولوں کا تعین آثار سے ثابت ہو یا اہل علم کے ارشادات سے، درایت کا اس میں کوئی فرق نہیں۔ فرض کیجیے آپ پلید کنویں کی تطہیر کے لیے بیس ڈول مقرر فرماتے ہیں۔ انیسواں ڈول آپ نکال رہے ہیں، اس وقت ڈول پلید ہے، ڈول کا پانی پلید ہے، کنواں پلید ہے، کنویں کی دیواریں پلید ہیں، ڈول سے جو پانی گر رہا ہے، وہ پلید ہے۔ جب بیسواں ڈول اوپر کی طرف حرکت کرتا ہے، کنویں کی ساری فضا طاہر مطہر ہو جاتی ہے۔ یہ بیسواں ڈول تمام گندے جراثیم کو بیک جنبش ختم کر دیتا ہے۔ درایت کی کسوٹی پر تو یہ طہارت سمجھ میں نہیں آتی!
صاحب ہدایہ کا ارشاد ہے:
’’مسائل البئر مبنية علي اتباع الآثار دون القياس‘‘ (1/45)
’’کنویں کے مسائل کا انحصار آثار پر ہے، قیاس پر نہیں۔‘‘
سوال یہ ہے آیا یہ آثار درایت کی زد میں نہیں آتے؟ صحیح مرفوع احادیث تو درایت کی وجہ سے محل نظر ہوں اور جن آثار کے متعلق اتنا بڑا مقتدر عالم فیصلہ دے کہ یہاں قیاس کو کوئی دخل نہیں، وہ کیسے قابل عمل ٹھہریں گے؟ قیاس اور درایت کے مفہوم میں اصطلاحاً فرق ہو سکتا ہے، مقاصد کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں، پھر امام کے دونوں مقتدر شاگرد کنویں کو جاری پانی کا حکم دیتے ہیں۔ (شامی: 1/217)
امام صاحب اور قیاس:
علماء نے ایسے مسائل کا تذکرہ فرمایا ہے جہاں امام ابو حنیفہ نے قیاس کو صرف اس لیے ترک فرمایا کہ وہ نص کے خلاف تھے، مثلاً: