کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 692
درایت اور برادران احناف:
حنفیت کی بریلوی شاخ کا زیادہ تر زور بدعات کی ترویج اور گانے پر ہے۔ ان کو استدلال اور معقولیت سے کچھ زیادہ تعلق نہیں۔ وہ زیادہ کام جذبات اور نعروں سے لیتے ہیں اور مولانا شبلی، سرسید اور حضرات دیوبند کو وہ وہابی سمجھتے ہیں، اس لیے وہ اس مصنوعی درایت سے بہت کم متاثر ہوئے۔ اس درایت سے معجزات، کرامات اور فقیروں کے فرضی قصوں کا بھی خاتمہ ہوتا تھا، اس لیے انہوں نے اسے قابل قبول نہیں سمجھا، بلکہ حضرات دیوبند کے سنجیدہ اور دور اندیش بزرگوں نے اس درایت کو اہلحدیث ہی کی طرح ناپسند کیا اور اس کے خلاف لکھا۔ ’’أصح السير‘‘ مؤلفہ مولانا دانا پوری میں اس قسم کا مواد کافی ملتا ہے، لیکن آج کل نو آموز دیوبندی اہل قلم اس سے متاثر ہوئے اور یہ اس لیے کہ اس نظریہ سے احناف میں قلت حدیث سے جو خلا تھا، اسے درایت سے پاٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فقہاء کے لیے اس مصنوعی اور ظاہری تفوق سے یہ حضرات مطمئن ہو گئے اور یہ غور نہ فرما سکے کہ دراصل یہ انکار حدیث کا زینہ ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت اور احناف کا یہ گروہ اس درایت کو بہت اچھال رہا ہے۔ ’’مسلک اعتدال‘‘ ایسا مسموم لٹریچر ان حضرات کی طرف سے شائع ہو رہا ہے۔
درایت کا اثر مروجہ فقہ پر:
حالانکہ درایت کا اثر جس قدر حدیث پر پڑتا ہے، اس سے کہیں زیادہ فقہ حنفی کے بعض ابواب اور حصص پر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر ابواب طہارت میں پانی کے مسئلہ پر غور فرمائیے۔ ہمارے ملک میں مدت سے اس کے بعض مسائل پر بحث چل رہی ہے، مثلاً پانی کی طہارت کا مسئلہ جس کا قدرے ذکر اوپر بھی آ چکا ہے:
(1) ماء کثیر کی مقدار میں احناف اور شوافع میں اختلاف ہے۔ احناف دہ دردہ کے متعلق فرماتے ہیں اس پر نجاست کا اثر نہیں ہوتا اور شوافع قلتین کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ نجاست سے متاثر نہیں ہوتا، جب تک اس کے اوصاف ثلاثہ نہ بدل جائیں۔ موالک کسی مقدار کے قائل نہیں۔ درایت کا فیصلہ تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کسی چیز میں نجاست کا اثر ظاہر نہ ہو، اسے کیوں پلید کہا جائے؟ قلیل اور کثیر میں امتیاز درایت کے خلاف ہے۔ اگر سنت کو ان قیود و سلاسل سے آزاد رکھا جا سکے، تو حدیثِ قلتین اصول روایت پر تنقید کے بعد قابل قبول ہو گی۔ احناف