کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 691
فطرت اور قانون قدرت رکھا، اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ تانگہ گھوڑے کے آگے جوت دیا گیا۔ جن عقول کی اصلاح و تربیت کے لیے قرآن و سنت نازل فرمائے گئے تھے، وہی عقل قرآن اور سنت پر مسلط کر دی گئی۔ یہ الٹی بہ نکلی برہمن کو بہا لائی معلوم ہوتا ہے مولانا شبلی، سرسید سے متاثر ہوئے۔ مولانا نے سرسید سے جو تاثر لیا، انہوں نے اسے اصطلاحاً علمی انداز دیا۔ معلوم نہیں سرسید بالقابہ نے اس سے کیا اثر لیا؟ واقعات کچھ اس طرح بدلتے رہے کہ مولانا شبلی نے علی گڑھ کالج کو خیر باد کہا اور تصنیف و تالیف کے لیے انہوں نے فرعی فقہیات کے بجائے کلام اور تاریخ کی راہ اختیار کی اور دوبارہ فرعی مباحث کی طرف رخ نہیں فرمایا، لیکن ان کے اس نظریہ سے علماءِ حدیث کی تنقیص کا پہلو پیدا ہوتا تھا، اس لیے اہلحدیث حلقوں نے کئی کتابیں لکھیں، جس میں درایت کے اس مفہوم کا علمی محاسبہ کیا گیا اور اس پر کڑی تنقید کی۔ زیر طباعت کتاب ’’حسن البيان فيما في سيرة النعمان‘‘، ’’الإرشاد في أمر التقليد والاجتهاد‘‘ مؤلفہ مولانا ابو یحییٰ شاہ جہان پوری ’’سيرة البخاري‘‘ اور اس کے علاوہ بھی کئی کتابیں لکھی گئیں۔ چونکہ مرزا قادیانی کا بھی حدیث کے متعلق اسی قسم کا انداز تھا، اس لیے ’’إشاعة السنة النبوية‘‘ میں مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی مرحوم و مغفور نے اس کا بڑا مفصل علمی محاسبہ فرمایا، کیونکہ انکار حدیث کے لیے یہ بڑی سہل اور قریبی راہ تھی۔ اسی اثناء میں مولوی عبداللہ چکڑالوی، مولوی حشمت علی نے حدیث کا انکار کیا اور یہ تحریک ملتان، گجرات، ڈیرہ غازی خاں وغیرہ مقامات میں کچھ چل نکلی۔ یہ لوگ چونکہ نہ تو عالم تھے، نہ اچھی زبان لکھ سکتے تھے، اس لیے قریباً یہ تحریک ناکام ہو گئی۔ اب اس کی نوک پلک درست کر کے اب ٹو ڈیٹ طور پر اسے مسٹر پرویز چلا رہے ہیں، لیکن ابتداء ہی سے اس تحریک کے لیڈروں کا نہ ظاہری کیریکٹر ہے نہ اخلاص۔ غالب امید یہ ہے کہ اس سے بد مذہبی اور بے دینی ضرور بڑھے گی، لیکن تحریک ناکام ہو گی، سنت کا نام نہیں مٹ سکے گا۔ یورپ زدہ طبقہ حدیث کا انکار کرتا ہے، اس فن کو مشکوک سمجھتا ہے، لیکن اہل قرآن کہلانا پسند نہیں کرتا، البتہ نماز، روزہ، حج، زکوۃ سے گریز کے لیے ان لوگوں کی آڑ لیتا ہے۔