کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 690
قدر خود انسانی طبائع میں۔ اقتضاء طبائع کے تابع ہے، یہ تنقید کا معیار کیسے ہو گا؟ بے دین طبائع کے تقاضے دینی طبائع سے مختلف ہوں گے۔ عالم اور بے علم کے مقتضیات بھی مختلف ہوں گے۔ بچے، جوان، بوڑھے، تاجر، مزدور، بادشاہ، غریب، آقا اور غلام، سب کے تقاضے مختلف ہوں گے۔ ان تقاضوں کی صحت خود محل نظر ہے، یہ کسی دوسری چیز کے لیے قانون کیسے بن سکیں گے؟
(4) ہر زمانہ کے خصائص الگ الگ ہوتے ہیں۔ قرون خیر کے خصائص بعد کے قرون سے کافی حد تک مختلف ہیں۔ قرون خیر کے واقعات کی نسبت اس وقت کے عقلی قرائن سے تو سمجھ آ سکتی ہے اور اس وقت کے اہل علم نے یقیناً ان عقلی قرائن کو ملحوظ رکھا ہو گا، لیکن اس وقت کے حوادث کو آج کے قرائن سے کیسے پرکھا جائے؟ جب کہ زمانہ کی خصوصیات بالکل مختلف ہیں!
(5) ہر واقعہ میں منسوب الیہ کے حالات کا جائزہ واقعہ کے سمجھنے میں واقعی مفید ہو سکتا ہے اور عقلی قرائن کے ساتھ نسبت اور تعلق فہم میں معاون ہو سکتا ہے، لیکن یہ شرط بہت ہی مجمل ہے۔ جب واقعہ ہو، قدرتی طور پر حقیقت پسند طبائع قرائن اور منسوب الیہ کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں، لیکن یہ جائزہ اور عقلی قرائن کا استعمال صدیوں کے بعد نہیں ہونا چاہیے۔ ایک شاگرد اپنے استاد سے ایک حدیث نقل کرتا ہے، اس وقت کے لوگ ان ناقلین کو ذاتی طور پر جانتے ہیں، اس سلسلہ میں ان کی آراء سے مفید معلومات حاصل ہو سکتے ہیں، لیکن صدیوں کے بعد جب کہ افکار اور اذہان اور ان پر غور و فکر کا معیار ہی بدل چکا ہو، اب آپ گڑے مردے اکھاڑنا شروع کریں۔ ہم قرن اور رفقاء ہی حالات کا صحیح تجزیہ کر سکتے ہیں۔
(6) پھر عقلی قرائن کیا چیز ہیں؟ اگر کتاب و سنت اصل ہیں، تو معیار ان کو ہونا چاہیے۔ عقل بھی وہی درست ہو گی، جو اس پیمانہ میں ناپی جائے۔ سرسید احمد خاں نے نیچر اور عقل کو اتنی اہمیت دی کہ قرآن کو بھی اس سے ناپنا شروع کر دیا۔ انبیاء کے معجزات ان کی عقل میں نہ آ سکے، انہوں نے انکار کر دیا۔ احادیث جو ان کے فہم سے بالا تھیں، ان کا قتل عام کیا، اس لیے عقلی قرائن پر جب تک پابندی نہ لگائی جائے، اس فتنہ سے کوئی بھی نہ بچ سکے گا اور پھر اصل قرآن و سنت نہ رہے، بلکہ تم لوگ اصل ٹھہرے، جن کی عقل کو کتاب و سنت کی تصریحات کے لیے حَکم قرار دیا گیا۔ گویا قرآن و سنت کے مفہوم کا تعین ہماری عقل کرے گی، جس کا نام سرسید نے