کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 689
پسند کیا ہو، دینی حلقوں میں اسے قطعی مقبولیت حاصل نہ ہو سکی، بلکہ رد و تردید کا ایک ہنگامہ بپا ہو گیا۔ سرسید بڑے پختہ کار تھے، وہ اس اختلاف پر برہم نہیں ہوئے، اپنی کہتے رہے۔ علامہ شبلی وقت کے مشاہیر سے تھے۔ ان کا تاریخی مطالعہ بہت سے ہم قرن علماء سے بہتر تھا۔ وہ حنفی مذہب کے اس خلا کو محسوس فرماتے تھے، جو قلت حدیث اور کثرت آراء کی وجہ سے دینی حلقوں میں مسلّم تھا۔ دوسرے ائمہ کی حدیثی خدمات سے بھی یہ بات بہت واضح تھی، احناف اس میدان میں بڑی دیر سے تشریف لائے۔ دوسرے ائمہ اور ان کے اتباع اور ائمہ حدیث بہت آگے نکل چکے تھے۔ یہاں پورا کارخانہ تقلید و جمود کے سہارے چل رہا تھا، اس لیے انہوں نے ان شخصی آراء کی ترجمانی لفظ ’’درایت‘‘ سے فرمائی اور اسے نہ صرف حدیث کا نعم البدل فرمایا، بلکہ احادیث کے انکار و تاویل کے لیے حربہ کے طور پر استعمال فرمایا۔ یہ لفظ علمی حلقوں میں مانوس تھا اور پرانی اصطلاح بھی تھی، پھر یہ سرسید کے ’’نیچر اور فطرت‘‘ سے بہتر تھی۔ مولانا نے صرف اس کی تعریف میں کچھ تصرف فرمایا، اس سے غالباً سرسید کو بھی کچھ سہارا ملا، قلتِ حدیث اور آراء پسندی کے خلا کے لیے بھی اس سے ’’معذرت‘‘ کا کام لیا۔ درایت کی تعریف: مولانا شبلی درایت کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں: ’’درایت سے یہ مطلب ہے کہ جب کوئی واقعہ بیان کیا جائے، تو اس پر غور کیا جائے کہ وہ طبیعت کے اقتضاء، زمانہ کی خصوصیتیں، منسوب الیہ کے حالات اور دیگر قرائن عقلی کے ساتھ کیا نسبت رکھتا ہے۔‘‘ (1) دیکھیے اس تعریف میں وہ قیود نہیں، جن سے مفہوم یا معنی کی تصحیح میں مدد مل سکے، یعنی عربیت میں مہارت کا کوئی تذکرہ نہیں۔ (2) ’’جب کوئی واقعہ‘‘ کے الفاظ سے کچھ ظاہر نہیں ہوتا کہ اس سے حدیث کے واقعات مراد ہیں یا عام دنیوی حوادث۔ بظاہر آپ کا انداز تاریخی حوادث کی تحقیق کے متعلق معلوم ہوتا ہے، جو بلاسند ہم تک پہنچیں اور محض خرص و تخمین سے صحت کا اندازہ لگانا پڑے۔ (3) پھر ’’اقتضاءِ طبیعت‘‘ بالکل مہمل جملہ ہے۔ طبائع کے اقتضاء میں اتنا ہی اختلاف ہے، جس