کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 688
بھی انہیں اسلحہ سے مسلح ہو کر میدان میں آ گئی۔ تیسری طرف قادیانی نبوت نے اپنے مخصوص علم کلام کا ہمرنگ زمین جال پورے ہندوستان میں پھیلا دیا۔ مذہبی آزادی کے موہوم دعویٰ کی بنا پر شیعہ، سنی، بریلوی گروہ باہم الجھ گئے اور پورا ملک میدان کارزار بن گیا۔ رسائل، اخبارات اور تردیدی لٹریچر اور مناظرات کی وہ گرم بازاری ہوئی کہ بظاہر ملک میں گھمسان کا رن محسوس ہوتا تھا۔ انگریز کی سیاست پوری طرح کامیاب ہوئی۔ 1857ء کے مظالم بالکل طاق نسیاں کی نذر ہو گئے۔ 57ء کے فسادات سے جو عارضی اتحاد ہوا تھا، وہ ذہنوں سے محو ہو گیا، اس ضمن میں علماءِ حق اور اہل توحید نے بالکل ظاہر قرآن و سنت کی روشنی میں اپنا فرض ادا کیا۔ تقریر و تحریر سے حقیقت واضح فرمائی۔ اس کے ساتھ بنگال سے پشاور اور بالاکوٹ تک انگریز کے خلاف سیاسی جنگ بھی ہوتی رہی۔ انگریز کو پوری ایک صدی شمالی سرحدوں پر پریشان رکھا گیا۔ سرسید اور ان کے رفقاء: سرسید احمد خاں بالقابہ اور ان کے چند رفقاء سیاسی طور پر انگریز کے حامی تھے، لیکن مذہباً اس کے خلاف تھے۔ ان حضرات نے مشنریوں، سماجیوں اور غیر مسلم گروہوں کے خلاف ہزاروں صفحات لکھے۔ نیت کا علم تو اللہ کو ہے، بظاہر معلوم ہوتا ہے یہ حضرات ان غیر مسلم حملوں سے مرعوب ہو گئے۔ ظواہر کتاب و سنت کے بجائے ان حضرات نے تاویل اور حقائق کے انکار کی راہ اختیار فرمائی۔ قادیانی لٹریچر کا انداز بھی قریباً یہی تھا۔ سرسید کی نیچر اور شبلی کی درایت: ان حضرات نے اساسی طور پر عقل کو حَکم قرار دیا۔ جو چیز ان کی عقول سے بالا ہوتی، اس کا انکار کر دیتے اور بڑی سنجیدگی سے فرماتے: ’’یہ نیچر اور فطرت کے خلاف ہے!‘‘ یہ نیچر اور فطرت عموم اور شمول کے لحاظ سے درایت اور فقہ راوی سے کچھ ملتی جلتی تھی، نہ اس ’’فقہ و درایت‘‘ کا کوئی پیمانہ تھا، نہ اس ’’نیچر اور فطرت‘‘ کا کوئی اصل اور مقدار ہے۔ اندھے کی لاٹھی ہے، جس طرف گھوم جائے، گھوم جائے۔ سرسید بالقابہ اور ان کے رفقاء نے اس کا استعمال قرآن پر بھی کیا اور حدیث پر بھی۔ قرآن سمجھ میں نہ آتا، تو حسبِ منشا تاویل کرتے اور حدیث کا انکار کر دیتے۔ اور ’’نیچر‘‘ کا معیار ہر آدمی تھا۔ یہ نام بھی کچھ غیر علمی اور دینی حلقوں میں غیر معارف بلکہ غیر مانوس تھا۔ یورپ زدہ حضرات نے شاید