کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 687
حشر ہوا اور جس قدر غلط مقاصد اس سے حاصل کیے گئے، وہ سابقہ گزارشات سے، جنہیں بڑے اختصار سے عرض کیا گیا، ظاہر ہے۔ اب نئی درایت پر غور فرمائیے، جس کی تاسیس ہمارے ملک کے نیچری حضرات نے فرمائی، بعض علماء نے جان کر یا سادگی سے اس درایت کی تائید کی اور اب پورے لادینی مقاصد کے لیے اسے استعمال کیا جا رہا ہے۔ نئی درایت: سابقہ درایت یا فقہ علمی دور کی پیداوار تھی۔ اہل بدعت سے تو بحث نہیں، اہل علم نے اس کا استعمال خاصی احتیاط سے کیا اور اسے معیار کا مقام نہیں دیا اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف اس سلسلہ میں جو کچھ منسوب کیا گیا، وہ قابل تامل ہے۔ حضرت امام کی طرف اس کی نسبت صحیح معلوم نہیں ہوتی ہے۔ اب ایک نئی درایت اور اس کا پس منظر ملاحظہ فرمائیے، جو حال ہی کی پیداوار ہے۔ علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ کا اصل فن تو تاریخ تھا، لیکن ابتدائے عمر میں وہ حنفیت کے بہت بڑے حامی تھے۔ ’’سيرة النعمان‘‘ ان کے اسی دور کی یادگار ہے۔ مولانا شبلی مرحوم ان ایام میں علی گڑھ یونیورسٹی سے بھی متعلق تھے، جس کے بانی مرحوم آنریبل سرسید احمد خان صاحب تھے۔ یہ وہ دور تھا جب مغل حکومت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا، جو 1857ء کے فسادات کے بعد ہمیشہ کے لیے گل ہو گیا۔ 1857ء کے ہنگامہ کو ختم کرنے کے لیے انگریز نے جس درندگی کا مظاہرہ کیا اور جس بے دردی سے اس نے عوام، علماء، سیاستدان، شعراء و اصحاب قلم اور تجّار کو پھانسیاں دیں۔ دار پر لٹکایا، ان ہیبت ناک مظالم کی نظیر شاید دور ماضی میں نہ مل سکے۔ ملک میں خوف و ہراس اور نفرت کے جو جذبات انگریز کے خلاف دلوں میں موجود تھے، شاید وہ صدیوں تک دلوں سے محو نہ ہو سکتے۔ انگریز نے اس کے متعلق صحیح طریق عمل کے بجائے ملک میں تفریق، خلفشار اور فرقہ پروری کی راہ اختیار کی اور یہ انتقامی جذبہ انبالہ کیس سے قاضی کوٹ سازش کیس تک جاری رہا، جس میں زیادہ تر علماءِ اہلحدیث ہی ان ستم آرائیوں کا شکار ہوئے۔ 1857ء کے بعد انگریز مشنری آئے، جن کی سرپرستی مغربی حکومتیں سیاسی مصالح کی بنا پر اور مسیحی عوام عقیدت کی نظر سے کر رہے تھے۔ ان لوگوں نے بڑے وسیع پیمانے پر اسلام کے خلاف جارحانہ حملے شروع کیے۔ دوسری طرف آریہ سماجی تحریک