کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 686
ہو، تو اس دعا سے کیا فائدہ؟) (6) جو لوگ صحیحین کے رجال کے خصائص کو جانتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ ان میں ادنیٰ اور معمولی آدمی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی غلط تعبیر نہیں کر سکتا۔ (7) آخر میں فرماتے ہیں: ’’ولهذا قال شيخ الحنفية صاحب الكشف والتحقيق في التحقيق: ولم ينقل عن أحد من السلف اشتراط الفقه من الراوي فثبت أنه قول مستحدث، بمثل هذا لا ينسب إلي أبي حنيفة رحمه اللّٰه ‘‘ 1ھ (دراسات اللبيب، ص: 315، 316) یعنی شیخ ابن ہمام جو احناف میں محقق بھی ہیں اور صاحب کشف و کرامت بھی، فرماتے ہیں کہ فقہ راوی کی شرط ائمہ سلف میں کسی سے بھی منقول نہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ یہ من گھڑت بات ہے، ایسی بات امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب نہیں کی جا سکتی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ حدیث کی صحت میں فقہ راوی کو کوئی دخل نہیں، اس کے لیے حفظ و ضبط کے بعد صدق اور مروءت کی ضرورت ہے۔ فقہ راوی کا مفہوم سے تعلق ہے۔ اگر حدیث کا متن مختلف الفاظ سے مروی ہو، تو فقہ راوی کی بنا پر بعض الفاظ کو ترجیح دی جا سکتی ہے، لیکن فقہ راوی کی بنا پر نہ کوئی متن گھڑا جا سکتا ہے، نہ کسی صحیح متن کا انکار کیا جا سکتا ہے۔ اس شرط سے شرح معانی میں کام لیا جا سکتا ہے، اس کی بنا پر اقرار یا انکار حدیث کے لیے کوئی وجہ جواز نہیں۔ صحابہ کا مقام تو اس سے کہیں بلند ہے کہ قاضی عیسیٰ بن ابان، سرخسی اور دبوسی ایسے عجمی حضرات ان کی زبان دانی پر بحث کریں! پھر فقہ کے مراتب مختلف ہیں۔ اس کی حیثیت کلی مشکک کی ہے، یہ کسی مقام پر بھی رد و قبول کے لیے معیار نہیں قرار پا سکتی، تاوقتیکہ اس کے لیے مقدار اور پیمانہ مقرر نہ کر لیا جائے۔ ایسی غیر معین اور غیر موقت چیز کو معیار قرار دینا خود درایت کے خلاف ہے، اور پھر احناف نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث روزہ میں دن کو بھول کر کھانے کے متعلق اپنا لی ہے، [1] حالانکہ وہ بھی قیاس کے خلاف ہے! یہ پرانی درایت اور فقہ ہے، جسے اہل علم نے ابتداءً اچھے مقاصد کے لیے تجویز کیا۔ اس کا جو
[1] یعنی جس حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی شخص روزے کی حالت میں بھول کر کھا لے یا پی لے، تو وہ اپنا روزہ پورا کرے، کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے۔ صحيح البخاري، رقم الحديث (1831) صحيح مسلم، رقم الحديث (1155)