کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 685
وإليه مال أكثر العلماء، لأن التغيير من الراوي بعد ثبوت عدالته و ضبطه موهوم‘‘ (2/703) [1]
یعنی روایت کی ترجیح اور تقدیم کے لیے فقہ راوی کی شرط صرف قاضی عیسیٰ بن ابان اور بعض متاخرین کا مذہب ہے۔ ابو زید دبوسی نے اسے پسند فرمایا اور مصراۃ اور عرایا کی حدیث کو اسی اصل پر تخریج کیا، اور شیخ ابو الحسن کرخی اور ان کے اتباع اس شرط کو قبول نہیں فرماتے۔ ان کا خیال ہے کہ عادل اور ضابط راوی کی خبر بہرحال قیاس پر مقدم ہو گی۔ ابو الیسر فرماتے ہیں: اکثر فقہاءِ حنفیہ کا یہی مذہب ہے، کیونکہ ثقہ راوی کی روایت کے بعد معنی کی تبدیلی کا سوال محض وہم ہے۔
امام ابو یوسف سے منقول ہے کہ وہ مصراۃ کی حدیث کو صحیح سمجھتے تھے، بالکل انہی خیالات کا اظہار شارح حسامی نے ’’غاية التحقيق‘‘ میں کیا ہے۔ (ص: 165، 166)
صاحب ’’دراسات اللبيب‘‘ نے اس مقام پر عجیب پرمغز اور مختصر بحث فرمائی ہے، وہ فرماتے ہیں:
(1) فقہ راوی کو تحمل اور صدقِ روایت میں کوئی اثر نہیں۔
(2) صحابہ میں یہ امکان ہی نہیں کہ روایت بالمعنی میں ایسی غلطی کریں، جس سے حدیث کا مقصود فوت ہو جائے۔
(3) جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ضبط کرنے کی کوشش فرماتے تھے، کیسے ممکن ہے کہ معنی ادا کرنے میں وہ غلطی کریں؟
(4) وہ لوگ اہل زبان تھے، ان سے ادائے معنی میں غلطی کا احتمال کہاں ہو سکتا ہے؟ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جیسا دانشمند آدمی جس کی طرف بوقت ضرورت عبادلہ ایسے فقہاء صحابہ رجوع فرماتے تھے۔
(5) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں حفظ کے لیے دعا فرمائی، جس کا یہ اثر ہوا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے اس کے بعد نسیان نہیں ہوا۔ [2] (اگر یہ حفظ بلا فہم ہو یا غلط فہمی کا امکان موجود
[1] كشف الأسرار عن أصول فخر الإسلام البزدوي (2/558)
[2] صحيح البخاري: كتاب العلم، باب حفظ العلم، رقم الحديث (119) صحيح مسلم: كتاب فضائل الصحابة رضي اللّٰه عنهم، باب من فضائل أبي هريرة الدوسي رضي اللّٰه عنه، رقم الحديث (2492)