کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 684
انس بن مالک رضی اللہ عنہ، اس کے بعد اس شرط کا فائدہ ذکر فرمایا:
’’ووجه ذلك أن ضبط حديث النبي صلي اللّٰه عليه وسلم عظيم الخطر، وقد كان النقل بالمعني مستفيضا فيهم، فإذا قصر فقه الراوي عن درك معاني حديث النبي صلي اللّٰه عليه وسلم و إحاطتها لم يؤمن أن يذهب عليه شييء من معانيه‘‘ (أصول بزدوي: 699) [1]
یعنی حدیث کے نقل کا معاملہ خطرناک ہے اور صحابہ میں روایت بالمعنی کا رواج عام تھا۔ اگر راوی فقیہ نہ ہو، تو ممکن ہے کہ حدیث کے مفہوم میں لغزش ہو جائے۔
اس کے بعد فرماتے ہیں کہ صحابہ کو غیر فقیہ کہنے سے ان کی تحقیر مطلوب نہیں، بلکہ امام صاحب بسا اوقات بعض شرائط سے غیر فقیہ صحابہ کی احادیث قبول فرما لیتے تھے:
’’فإن محمدا يحكي عن أبي حنيفة في غير موضع أنه احتج بمذهب أنس بن مالك وقلده فما ظنك في أبي هريرة‘‘ (اصول بزدوي: 700) [2]
امام محمد فرماتے ہیں: امام صاحب کبھی انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی بھی تقلید فرما لیتے تھے اور وہ ابو ہریرہ سے زیادہ غیر فقیہ تھے۔‘‘
تعجب ہے کہ اس خطاب کے لیے یہی بے چارے دو یا تین صحابہ مثال کے طور پر ملے ہیں، باقی ایک لاکھ کے پس و پیش غالباً سب فقیہ ہوں گے!
اصول بزدوی کے شارح عبدالعزیز بن احمد بخاری (481ھ) فرماتے ہیں:
’’اعلم أن ما ذكرنا من اشتراط فقه الراوي لتقديم خبره علي القياس، هو مذهب عيسيٰ بن أبان، و اختاره القاضي الإمام أبو زيد، و خرج عليه حديث المصراة و خبر العرايا، و تابعه أكثر المتأخرين، فأما عند الشيخ أبي الحسن الكرخي ومن تابعه من أصحابنا فليس فقه الراوي بشرط لتقديم خبره علي القياس، بل يقبل خبر كل عدل ضابط إذا لم يكن مخالفا للكتاب والسنة المشهورة، يقدم علي القياس، قال أبو اليسر:
[1] أصول البزدوي (ص: 159)
[2] مصدر سابق