کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 62
دوسرے دور کا اٹھارواں پارہ قریب الختم تھا۔ اس درس کے بعد تجّار اور کاروباری لوگوں کی ایک جماعت آپ سے باترجمہ قرآن مجید پڑھتی تھی، بعد ازاں مدرسہ محمدیہ کے اسباق شروع ہو جاتے تھے اور آپ اہم کتابیں خود پڑھاتے تھے۔
اثنائے مصروفیت ہی میں مضمون نویسی، مقالہ نگاری، خطوط کے جواب اور فتویٰ تحریر فرماتے تھے۔ شہر کی سیاسی و معاشرتی تحریکوں میں حصہ بھی لیا جاتا تھا، ملک کی تحریکوں میں پورے انہماک کے ساتھ حصہ لیتے تھے اور حوادث میں باحسن وجوہ خدمات سرانجام دیتے تھے۔
خطابت:
میدان خطابت کے آپ ایسے شاہسوار تھے، جن کی نظیر ہماری دینی جماعتوں میں شائد کوئی پیش نہ کر سکے۔ آپ کی تقریر کا اسلوب ابتدا ہی سے یگانہ اور منفرد تھا۔ 1921ء کے بعض سامعین اس بات کے شاہد ہیں کہ اس وقت بھی آپ کا اندازِ بیان نرالا تھا۔ آخری دور میں تو خصوصاً پوری کی پوری تقریر حشو و زوائد سے پاک، نیز بے ربط جملوں، غلط تلفظ اور وضعی حکایتوں سے پاک ہوتی تھی۔ دوران تقریر آواز کا زیرو بم، موزوں الفاظ کا انتخاب اور پھر عربی و فارسی اشعار کی ایسی آمد کہ عوام و خواص جھوم جھوم جاتے تھے۔
تصنیف و تالیف:
تفسیر قرآن حکیم کے بعد حضرت کا پسندیدہ موضوع حدیث، حجیت حدیث، تدوین حدیث اور محدثین کرام کے کارنامے تھا، اسی بناء پر مولانا کو محدثین کرام رحمہ اللہ اور مسلک اہل حدیث سے محبت اور شیفتگی تھی، جس کا بین ثبوت حضرت کی مؤلفات اور زیر تصنیف تالیفات ہیں۔ اردو انشا پردازی میں صاحب طرز تھے، جس میں روانی، سلاست بیانی، الفاظ کا چناؤ، ان کا جڑاؤ، طنز کی پھوار اور پھر محل کے مطابق اشعار کی آمد اور شگفتگی بدرجہ اتم موجود ہوتی تھی۔ باوجودیکہ حضرت کثیر الاشغال تھے اور ایک ہی نشست میں شاید ہی کوئی مضمون رقم فرمایا ہو، لیکن پھر بھی موضوع سے ربط اور تسلسل بدستور قائم رہتا تھا۔ شاید بہت کم حضرات کو علم ہو کہ اردو انشا پردازی کے ساتھ ساتھ آپ کو عربی زبان اور اس کے لب و لہجہ پر بھی پورا عبور حاصل تھا۔ اس کی لطافتوں، نزاکتوں اور شیرینی کو برقرار رکھتے ہوئے اہل زبان سے ہمیشہ خط و کتابت رکھتے تھے۔ مطبوعہ و غیر مطبوعہ تصانیف کی تعداد مندرجہ ذیل ہے: