کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 60
آئے۔ ان ایام میں گوجرانوالہ کی جماعت اہل حدیث چند نفوس پر مشتمل تھی، حضرت سیالکوٹی نے جماعت کے اراکین سے کہا کہ میں ایک در شہوار تمہارے سپرد کرنے آیا ہوں، اس کو حفاظت سے رکھنا۔ اس کے بعد آپ نے شہر گوجرانوالہ کو ایسا وطن بنا لیا کہ اس شہر میں منبر و محراب کو الحمدللہ چار چاند لگا دیے۔ گزشتہ نصف صدی میں کئی انقلاب آئے، مگر آپ اپنے جادہ مستقیم پر رواں دواں رہے۔ آپ کے پائے عزیمت میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ مقام و مرتبہ کی چاہت اور دولت کی طلب آپ کو اپنے مقام سے نہ ہلا سکی۔ مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ نے شیخ عبدالقادر شیبۃ الحمد کی معرفت آپ کو مدینہ منورہ بلوا بھیجا، مگر آپ نے گوجرانوالہ میں قیام کو ترجیح دی اور اپنی جگہ حضرت العلام جناب مولانا حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کو بھجوا دیا۔ گوجرانوالہ کی جامع اہل حدیث میں آپ نے مدرسہ محمدیہ کی بنیاد رکھی۔ یہ مدرسہ نصف صدی تک نہ صرف گوجرانوالہ اور اس کے مضافات بلکہ متحدہ پنجاب کے دور دراز کے طلبہ کو علوم اسلامیہ اور ادب عربی سے لبریز کرتا رہا۔ اس مدرسے میں موصوف نہ صرف خود پڑھاتے تھے، بلکہ وقت کے بہترین اساتذہ متعین فرماتے تھے۔ ملک کے بڑے بڑے فاضل یگانہ لوگ اس مدرسہ محمدیہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ قومی و جماعتی خدمات: اس سلسلے میں مناسب ہو گا کہ جریدہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور کے اداریہ کا ایک ٹکڑا نقل کر دیا جائے، جو یکم مارچ 1968ء کو شائع ہوا۔ ’’گزشتہ نصف صدی میں جماعت اہل حدیث کی کسی بھی قسم کی مذہبی و سیاسی سرگرمی میں مولانا محمد اسماعیل صاحب بدستور ایک اہم عنصر کی حیثیت سے شامل رہے۔ نوجوانی میں سعی و ہمت کا یہ حال تھا کہ 1924ء میں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کا سالانہ اجلاس کر ڈالا، جس کے صدر استقبالیہ ہمارے بزرگ مولانا حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ تھے۔ ہمارے مولانا کو جماعت منظم کرنے کی بڑی دھن تھی۔ انجمن اہل حدیث پنجاب کا قیام عمل میں آیا، تو اس میں مولانا مرحوم کا بہت دخل تھا۔ 1931ء میں شاہ محمد شریف گھڑیالوی کی سربراہی میں جمعیت تنظیم اہل حدیث پنجاب وجود میں آئی، تو اس کے