کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 59
امرتسر میں آمد:
ان دنوں امرتسر میں علوم و فنون کا چرچا تھا۔ اکابرین خاندان غزنویہ علوم و فنون کا منبع بن چکے تھے۔ مدرسہ غزنویہ میں آپ نے حضرت مولانا عبدالغفور غزنوی رحمہ اللہ اور حضرت مولانا عبدالرحیم غزنوی رحمہ اللہ سے استفادہ کیا۔ قیام امرتسر کے دوران میں آپ نے حضرت مولانا مفتی محمد حسن رحمہ اللہ (جو قیام پاکستان کے بعد جامعہ اشرفیہ لاہور کے بانی ہوئے) سے فنون کی کتابیں پڑھیں۔ آپ مفتی صاحب موصوف سے بہت متاثر تھے۔ فنون میں ان کے ذوق اور طریق تدریس کی بہت تعریف فرماتے تھے۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ فنون میں میری دلچسپی اور درک حضرت مفتی صاحب کے طریقِ تدریس کا فیض ہے۔
سیالکوٹ میں آمد:
سیالکوٹ زمانہ قدیم سے علم و فضل کا گہوارہ رہا ہے۔ اس سرزمین میں علامہ عبدالحکیم رحمہ اللہ سیالکوٹی اور نابغہ روزگار علامہ اقبال جیسی ہستیاں ہوئی ہیں، چنانچہ امرتسر سے فراغت کے بعد حضرت سلفی رحمہ اللہ سیالکوٹ تشریف لے گئے۔ ان دنوں وہاں حضرت علامہ محمد ابراہیم میر رحمہ اللہ سیالکوٹی کی علمیت کا چرچا تھا۔ مولانا سلفی نے ان سے بھی کسب فیض کیا۔
جس طرح زمانہ قدیم کے علماء علمی تشنگی کی سیرابی کے لیے دور دراز کا سفر کرتے تھے، اسی طرح حضرت سلفی رحمہ اللہ نے کئی قدیم دینی مراکز کے سفر کیے اور ان سب مدارس سے علمی جواہر اکٹھے کیے۔ حضرت سلفی کا سلسلہ علم سند کے لحاظ سے چوبیس واسطوں سے جناب شارع علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔
حضرت علامہ ابراہیم سیالکوٹی رحمہ اللہ مولانا سلفی رحمہ اللہ کے والد کے ہم نام تھے۔ انہوں نے حضرت سلفی رحمہ اللہ کی ذہانت و فطانت کو آن واحد میں پہچان لیا اور انہیں اپنا روحانی بیٹا قرار دیا۔ علامہ سیالکوٹی مرحوم نے اپنی عظیم الشان لائبریری مولانا سلفی کی تحویل میں دے دی اور اس طرح مولانا مرحوم کو قدیم تفاسیر اور نادر علمی کتابوں سے استفادے کا موقع حاصل ہوا۔
گوجرانوالہ میں تقرر:
آپ 1339ھ بمطابق 1921ء میں مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کی معیت میں گوجرانوالہ