کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 51
بصیرت کا بھرپور تاثر ملتا ہے۔ اپنی تحریر میں بے معنی طوالت سے گریز کرتے ہیں۔ لمبی سے لمبی بات کو بڑے اختصار اور جامعیت کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ آپ کی تحریر میں تخیل کی رفعت، زبان و بیان کی رعنائی اور ادبی شان پائی جاتی ہے، ہلکے پھلکے مختصر اور خوبصورت جملے آپ کا مخصوص طرز نگارش ہے۔ ’’مولانا کی سادہ اور بے ساختہ تحریروں میں چونکہ جذبے کی سچائی اور خلوص ہے، اس لیے ان کی بات دلوں میں اتر جاتی ہے۔ انہوں نے جذباتی پیرایہ بیان کرنے کی بجائے منطقی استدلال سے کام لیا ہے اور ہر موضوع پر علمی و تحقیقی نقطہ نظر سے لکھا ہے۔ مولانا کی تحریریں علمی رفعت و بصیرت کی حامل ہیں۔ آپ قاری میں بھی علمی بصیرت کی وہی روشنی پیدا کرنا چاہتے ہیں، جس سے وہ خود بہرہ یاب ہیں۔ مولانا اصحاب الرائے اور تقلید جامد کے خلاف بے باک نقاد ہیں، مگر تنقید اس انداز سے کرتے ہیں کہ فریق مخالف برا ماننے کے بجائے قائل ہو جاتا ہے۔ اپنی تحریروں میں مولانا قاری کو قائل کر لیتے ہیں کہ حقیقت تک پہنچنے اور سچائی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ تحقیق ہے نہ کہ تقلید۔ اختصار ان کے بیان میں بڑا حسن پیدا کرتا ہے، وہ بے ضرورت جزئیات کو ہمیشہ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بعض علماء کی تحریروں میں طنز و سوقیانہ الفاظ و فقرے ملتے ہیں، مگر حضرت سلفی رحمہ اللہ کی تحریروں میں متانت اور وقار ہے۔ طنز و تعریف کے بجائے مزاح کی چاشنی پائی جاتی ہے۔ جو جامعیت مولانا کی تحریروں میں ہے، وہ آپ کے معاصرین میں نظر نہیں آتی۔‘‘ (مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ، ص: 94) جی تو چاہتا ہے کہ حضرت سلفی رحمہ اللہ کے طرز نگارش کی مذکورہ بالا مزایا اور صفات کو ان کی تحریرات سے مبرہن کیا جائے، لیکن معروضات کا دامن پہلے ہی کافی پھیل چکا ہے، اس لیے مندرجہ بالا آراء ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے اور پھر اس حقیقت کو عیاں کرنے کے لیے زیر نظر مجموعہ میں شامل حضرت سلفی رحمہ اللہ کی تحریرات ہی کافی اور وافی ہیں۔ اسلوبِ تحقیق: (1) حضرت سلفی رحمہ اللہ نے اکثر مواقع پر قرآنی آیات سورت کے نام اور آیت نام کے بغیر ہی