کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 509
اصطلاحی الفاظ کے سمجھنے میں قارئین کو دقت ضرور ہوتی ہے، لیکن فنی مسائل میں اس کے سوا چارہ نہیں۔ اس لیے ناظرین ’’الاعتصام‘‘ کا فرض ہے کہ وہ ایسے مضامین سے گھبرائیں نہیں، بلکہ غور سے پڑھیں۔ یہ مضامین اس قدر مشکل نہیں کہ غور کے بعد بھی سمجھ میں نہ آ سکیں۔
ارسال کی ضرورت:
مرسل کی بحث سے پہلے مناسب ہے کہ اس ضرورت کا اظہار کر دیا جائے کہ ارسال کی ضرورت کیوں ہوئی؟ روزانہ واقعات کے سلسلہ میں جہاں متکلم اور مخاطب دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہوں، واقعہ ذکر کر دیا جاتا ہے۔ فریقین سن کر اس کے غلط یا صحیح ہونے کے متعلق رائے قائم کر لیتے ہیں اور سند کی ضرورت معلوم نہیں کرتے۔ واقعہ کی غلطی پر اتفاق ہو یا اس کی صحت پر، سند کے تذکرہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ واقع کے صحیح ہونے میں اگر شبہ ہو، متکلم اور مخاطب کی رائے میں اختلاف ہو، تو واقع کی سند کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ یہ ایسا قدرتی اصول ہے۔ جسے ہم مکالمات میں روزانہ استعمال کرتے ہیں۔
صحتِ واقع کے لیے سند کی ضرورت پر یقین کرتے ہوئے بھی بلا ضرورت اس کے تذکرہ کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ خود فن حدیث میں سند ایسے ہی تدریجی ارتقاء کے طور پر آئی۔ صحابہ میں صدق غالب تھا۔ جو لوگ عام گفتگو میں غلط بیانی سے پرہیز کرتے تھے، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں یہ مداہنت کیسے گوارا کر سکتے تھے؟ [1] کبار تابعین کے زمانہ میں بھی صورت حال اس کے قریب قریب تھی، لوگ جھوٹ بولنے سے پرہیز بھی کرتے تھے اور گریز بھی۔
صحابہ باہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا تذکرہ فرماتے اور یہ احساس بھی نہ ہوتا کہ اس کی سند دریافت کی جائے۔ ارشادات نبوی کی چھان پھٹک کے متعلق ہر طبیعت میں ایک معیار موجود تھا، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مصاحبت سے خود بخود طبائع میں پیدا ہو چکا تھا۔ حسن عمل کی برکت سے طبائع میں ازخود ایک توازن پیدا ہو گیا تھا، جس کے ہوتے سند کی ضرورت نہ تھی۔إلا أن يضطر إلي ذلك
[1] حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو حدیث بیان کرتے وقت جھوٹ نہیں بولا کرتے تھے۔ نیز فرماتے ہیں:
’’خدا کی قسم! ہم جھوٹ نہیں بولا کرتے تھے، بلکہ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ جھوٹ ہوتی کیا چیز ہے؟‘‘ (المعجم الكبير للطبراني: 1/246، مفتاح الجنة للسيوطي: 77)