کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 507
غریب الفاظ کی لغت لکھی، کسی نے جرح و تعدیل کی راہ کھولی، کسی نے جرح و تعدیل کے اصول لکھے، کسی نے تنقید حدیث کے اصول لکھے، کسی نے قرآن و حدیث کے فہم کے لیے قواعد وضع فرمائے۔ ان مقامات کی تعیین میں کتابیں لکھیں جن کا ذکر احادیث میں ضمناً آیا تھا۔ شروح لکھیں، مشکلات کا حل لکھا، مختلف المفہوم احادیث کی تطبیق میں مستقل کتابیں لکھیں، رفع شکوک کے لیے تاویل مختلف الحدیث پر ضخیم دفاتر لکھے، صحابہ کے احوال میں بہترین تاریخی ذخائر جمع کیے۔ ایک نام کے مختلف ناموں میں وجوہ تمییز کی راہیں پیدا کیں، قرائن تلاش کیے، مبہم اسماء کی تعیین کے لیے تحقیقی کتابیں لکھیں، کتابت کی غلطیوں اور ان کی متنوع تصحیفات پر سیر حاصل مباحث لکھے، اسانید اجازت، آداب شیخ و سامع کے مفید ذخائر جمع فرمائے، سیرت نبوی میں بڑی بڑی موشگافیاں فرمائیں، ابواب مغازی کے ہزاروں اوراق لکھے۔
ہر دور کی ترقیات میں اسلام کی ہدایات اور ان کی اہمیت سنت ہی کی روشنی میں فرمائی گئی۔ اختلافِ مذاہب اور فقہی فروع میں ہر فریق کے مستدلات کا انحصار چونکہ کتاب اللہ اور سنت پر تھا، اس لیے ان کی تنقیح فقہی نقطہ نظر سے فرمائی گئی۔تخریج احادیث میں لاکھوں صفحات لکھ دیے گئے۔ مستدرکات، مسانید، جوامع، اجزاء، سنن وغیرہ تصانیف کے مستقل عنوان ہیں، جنہیں خدمت حدیث کے طور پر انجام دیا۔ اس طرح خدمت کا یہ شرف دنیا کے شائد کسی علم کو حاصل نہیں ہوا۔
یہ قبول عام ایک ایسے تواتر کی طرف راہنمائی کرتا ہے، جس کا انکار عقلمندی کے منافی ہو گا۔ آپ ان خدمات اور قبولیت عامہ کا تذکرہ کسی غیر مسلم متعصب کے سامنے فرمائیے، وہ آپ کی تعلیم پر اعتراض کر سکے گا، آپ کے اعمال پر تنقید کر سکے گا، وہ مسائل پر جزوی شبہات وارد کر سکے گا، لیکن یہ جرأت ناممکن ہو گی کہ وہ یہ کہہ دے کہ وہ ذخیرہ ہی امت کی نظر میں سرے سے غیر مستند ہے یا اسے حجت ہی نہیں سمجھا گیا۔
یہ حدیث کا وہ پہلو ہے جس کے ہوتے ہوئے سند کی بحث، رواۃ کا تذکرہ، ارسال و تدلیس کے مباحث جزوی اور ضمنی مباحث تصور ہوں گے۔ اصولی طور پر حدیث اور سنت کی حجیت قطعی غیر مشتبہ ہو جائے گی۔ متواتر کو حجت اور قطعی تصور کرنے والے اس قبول عام پر غور کریں، جو معصوم و مرحوم امت نے اپنے پیغمبر کے آثار کے متعلق اظہار فرمایا اور سوچیں کہ آیا یہ سب کچھ حجیت کی تعبیر نہیں تھا؟