کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 506
یہ ساری باتیں ’’قرینہ‘‘ سے معلوم ہوتی ہیں۔ آپ حضرات کی دیانت پر حملہ مقصود نہیں، آپ حضرات کے دل کا حال تو خدا ہی کو معلوم ہے، ظاہری قرائن اور حالات کا تقاضا یہی ہے جو عرض کیا گیا۔ امام زہری اور ائمہ حدیث کے کارنامے اس قدر روشن اور بے غبار ہیں کہ ان پر کوئی دیانت دار آدمی شبہ نہیں کر سکتا، مگر ہمارے عمادی صاحب کی جرأت کا یہ حال ہے کہ وہ منافقین عجم کا فسانہ تصنیف فرماتے ہیں، پھر وضع و تخلیق کو سیاسی انتقام کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، پھر حوالہ دیے بغیر ان واقعات میں امام زہری کا جوڑ لگاتے ہیں، پھر تصور فرماتے ہیں کہ امام زہری ایلہ میں پورے پچاس سال محض زمینداری کے کام میں مشغول رہے۔ 101ھ میں جب منافقین سے سودا ہو گیا، تو امام زہری نے علمی مشغلہ کا آغاز فرمایا۔ ﴿ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ﴾ (النور: 40) اور نمبر وار جھوٹ اور غلط بیانیاں ہیں، جو اوہام کی بنا پر نوک قلم سے ٹپک گئیں۔ پھر عمادی صاحب یہ تذکرہ اس وثوق سے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت یہاں بطور دلال موجود تھے اور ان کی موجودگی میں منافقین عجم نے امام زہری سے سودا کیا۔ محترم مولانا اپنے ضعفِ بصارت کے شاکی تھے، مجھے محترم کے متعلق فقدانِ بصیرت کا شکوہ ہے۔ ان میں بعض حوادث کو اس طرح مرتب کیا گیا، جس سے مولانا کی علمی دیانت پر بھی شبہ ہونے لگتا ہے اور ایک عالم کے لیے یہ طریق کار عیب ہے! امت کا عمل اور حدیث: حدیث کا جمع، حفظ اور تدوین جس طرح عمل میں آیا، یہ خدا تعالیٰ کی توفیق ہے، جو صرف اسی امت کو میسر آئی۔ تصنیف کتب میں اور حفظ آثار میں جو محنت کی گئی، وہ معجزہ سے کم نہیں۔ کوئی امت اپنے آثار کو اس طرح محفوظ نہیں رکھ سکی، جس طرح علماء کرام نے اپنے آثار کو محفوظ فرمایا۔ قرآن عزیز کا ارشاد: ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ (الحجر: 9) قطعی ہے، اور قرآن عزیز اور احادیث نبویہ کی حفاظت کا عالم اسباب میں یہ انتظام اس کی عملی تصدیق ہے۔ امت کا یہ عمل تاریخ کا ایک روشن باب ہے اور قابل صد تشکر۔ ﴿فَمَن شَاءَ فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاءَ فَلْيَكْفُرْ﴾ (الکہف: 29) پھر آنے والے لوگوں نے جس نگاہ سے اسے دیکھا، کسی نے رجال کا تذکرہ لکھا، کسی نے