کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 505
ایک مسلّمہ عقیدہ کی حیثیت رکھتا ہے، اس قسم کی کھلی غلط بیانی اور جھوٹ ایک مجرمانہ جسارت ہے اور شرمناک عیب۔ مضمون نگار کا فرض تھا کہ وہ منافقین کی اس کمیٹی کے ممبران کے نام گنواتے، جو احادیث کی وضع و تخلیق کے لیے بنی، پھر امام زہری کے ساتھ ان کے تعلقات کی تاریخی سند ذکر فرماتے۔ اگر یہ مفروضہ ثابت ہو جاتا، تو معاملہ صاف ہو جاتا۔ زہری کی دیانت داری یا سادگی کے منافقانہ اعتراف کا کیا فائدہ؟
زہری کی شیعیت کے لیے زین العابدین کی مصاحبت کی کوئی دلیل نہیں۔ بشرط ثبوت زین العابدین میدان کربلا کے بقیۃ السیف ہیں۔ یہ اس وقت قریباً اٹھارہ سال کے تھے۔ [1] عبیداللہ بن زیاد نے ان کو زندہ چھوڑنے کی سفارش کی اور یہ یزید کی حکومت سے وظیفہ لیتے رہے اور عموماً اموی حکومت کے حامی رہے۔ زہری کی شیعیت تو دوسری بات ہے، واقعات کی شہادت تو زین العابدین کی شیعیت کے بھی خلاف ہے۔ امام زہری کا رجالِ شیعہ میں تذکرہ ان کی شیعیت کا ثبوت نہیں ہو سکتا، بلکہ اس میں دوسرا احتمال قوی ہے کہ شیعہ حضرات نے عمادی صاحب ایسے سادہ لوح برخود غلط لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے امام زہری کا تذکرہ اپنے رجال میں کر دیا، حالانکہ ان کی روایات میں امام زہری کا ذکر بحیثیت راوی ناپید ہے۔ اپنی سادہ لوحی کو چھپانے کے لیے امام زہری کو سادہ لوح کہنا عجیب ہے!
یہ تعارض بھی معمہ ہے کہ زہری سادہ لوح اور بیوقوف بھی ہوں، (معاذ اللہ) منافقین کا دھوکہ بھی کھا جائیں اور ذہین و فطین اور بلا کے حافظ بھی ہوں۔ اگر ظنون اور تخمینات سے کوئی واقعہ تصنیف ہو سکتا ہے اور امکانات و احتمالات سے حقائق کی تخلیق عمل میں آ سکتی ہے، تو ادباً ہمیں بھی گزارش کرنے کی اجازت دیجیے:
ہماری قطعی رائے ہے کہ مولانا عمادی ایسا ’’ذہین‘‘ اور ’’فطین‘‘ آدمی ’’سادہ لوحی‘‘ سے شیعوں کا آلہ کار بن گیا ہے، تاکہ وہ اہل سنت میں احادیث کے متعلق بدگمانی پیدا کر سکے اور انہیں اپنے رجال اور اپنے ائمہ اور اپنے عقائد سے متعلق شبہ میں ڈال سکیں۔ ’’ادارہ طلوع اسلام‘‘ چونکہ فرنگیوں کے ایجنٹ ہیں۔ فرنگی اور شیعہ عقائد اہل سنت کی تخریب اور تشکیک کے لیے متفق ہیں، اس لیے یہ لوگ عمادی صاحب اور ان کے رفقاء کی غلط صحیح ترجمانی کر رہے ہیں!!
[1] زین العابدین کی عمر تئیس (23) سال تھی، جب ان کے والد دس محرم 61ھ کو شہید ہوئے۔ (تهذيب التهذيب: 7/269)