کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 504
منتخب کیا ہو، اور یہ واقعہ ہے کہ ذہانت و فطانت اور غیر معمولی قوت حافظہ کی وجہ سے ان کا انتخاب ایک کامیاب انتخاب ثابت ہوا۔‘‘ (حوالہ مذکور)
’’واضح رہے کہ ابن شہاب زہری کی دیانت پر حملہ نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے نیک نیتی سے حدیثیں جمع کرنا شروع کیں۔‘‘ (حوالہ مذکور)
’’خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے زہری کو جمع احادیث کا حکم نہیں دیا تھا۔ کتابتِ احادیث کی تمام روایات آحاد ہیں اور ان سے استدلال مصادرہ ہے۔‘‘ (ص: 55)
’’پہلی صدی کے اواخر میں فتنہ روایات کا سیلاب آ گیا تھا۔‘‘ (ص: 53)
نتائج:
اس نظریہ اور حوالوں سے مندرجہ ذیل نتائج سمجھے جا سکتے ہیں:
(1) زہری شیعہ تھے، لیکن سنّیوں میں بھی ان کو قبولیت حاصل رہی۔
(2) جمع احادیث کا خیال ابتداءً منافقین عجم کو ہوا۔
(3) امام زہری سادگی کی وجہ سے ان کے دھوکے میں آ گئے۔ ان کی دیانت داری پر کوئی شبہ نہیں۔
(4) اس تجویز سے پہلے امام زہری ایلہ میں قیام پذیر رہے۔
(5) 101ھ سے پہلے جمع و تدوین کا نام و نشان بھی نہ تھا۔
(6) منافقوں نے یہ کام ایک منظّم سکیم کے ماتحت کیا تھا۔
(7) خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے جمع و تدوین کے لیے حکم نہیں دیا تھا۔
(8) پہلی صدی کے اواخر میں فتنہ روایات کا سیلاب آ گیا۔
(9) امام زہری 101ھ سے پہلے نہ کسی سے روایت سن سکے، نہ کسی سے کچھ کہہ سکے۔
یہ نمبر وار نتائج اوپر کی محوّلہ عبارات سے ماخوذ ہیں۔ واقعات کے اثبات میں قطعی حوالوں کی ضرورت ہوتی ہے، ظن اور تخمین سے واقعات ثابت نہیں ہو سکتے۔ ’’ہو سکتا ہے‘‘ ’’ہوا ہو گا‘‘ کے الفاظ بے فائدہ ہیں۔ افسوس ہے کہ عمادی صاحب ان اوہام کے متعلق کوئی حوالہ نہیں پیش کر سکے، بلکہ ساری عمارت ذہنی توہمات پر رکھی گئی ہے اور عمادی صاحب کی کتاب الاوہام کے سوا کوئی حوالہ نہیں دیا ہے، نہ کوئی حوالہ اس کے متعلق مل ہی سکتا ہے۔ ایک علمی مبحث میں جس کی اہمیت یہ ہے کہ وہ امت میں