کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 503
جمعِ حدیث کے متعلق ایک اور نظریہ:
اب جمع و حفظِ احادیث کے متعلق ایک اور نظریہ سنیے:
’’میں شروع ہی میں لکھ چکا ہوں کہ ابوبکر بن حزم مدینہ طیبہ کے قاضی تھے۔ ان کے پاس اتنا وقت کہاں تھا کہ اتنا بڑا کام سر انجام دے سکتے؟ آپ شاید قاضی ابوبکر کو لیاقت علی خان اور دولتانہ پر قیاس فرما رہے ہیں۔ اور پھر اس حکم کے کچھ ہی دنوں بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز شہید کر دیے گئے اور فوراً ہی ابوبکر بن حزم اپنے عہدہ سے معزول ہو گئے، اس لیے ابوبکر بن حزم اس مہم کو سر نہ کر سکے اور یہ کام رہا ہی چاہتا تھا کہ منافقین عجم کی ایک جماعت نے اپنا رسوخ فی الدین اور ظاہری زہد و تقویٰ دکھا کر ابن شہاب زہری کو جمع احادیث پر آمادہ کیا۔ یہ اپنے تجارتی اور زراعتی کاروبار کی وجہ سے اپنے وطن ایلہ میں رہا کرتے تھے، مگر ایک بہت بڑی دینی خدمت سمجھ کر اس مہم پر آمادہ ہو گئے اور 101ھ کے بعد مدینہ آ کر یہاں کے لوگوں سے حدیثیں لیں، پھر کوفہ، بصرہ، مصر وغیرہ مقامات سے بھی روایتیں حاصل کیں اور ہر راہ چلنے سے جو حدیث بھی مل جاتی لکھ لیتے اور یاد کر لیتے اور پھر وہی منافقین خود بھی ان کے پاس آ آ کر حدیثیں لکھوانے لگے اور دوسرے وضّاعین و کذّابین کو ان کے پاس بھیج بھیج کر ان سے بھی حدیثیں ان کے پاس جمع کرانے لگے۔‘‘ (طلوع اسلام: 9/ص: 50، بابت ستمبر: 54)
’’یہ امام زہری، حضرت زین العابدین علی بن الحسین کے خاص احباب اور ان کے معتمدین میں شمار کیے جاتے تھے، اس لیے شیعوں میں بھی ان کی ایک امتیازی حیثیت تھی، یہاں تک کہ متقدمین شیعہ ان کو اپنی ہی جماعت کا ایک فرد فرید سمجھتے تھے، مگر یہ اپنے کو شیعہ نہیں کہتے تھے، اس لیے اہل سنت ان کو اپنی جماعت میں داخل سمجھتے تھے۔‘‘ (بحوالہ مذکور)
’’اس لیے اگر اس وقت ابن شہاب زہری دونوں جماعتوں میں ممدوح و معتمد رہے، تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اسی وجہ سے منافقین نے اس کام کے لیے انہیں