کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 502
معاویہ رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلی تاریخ کی کتاب لکھوائی، اس میں ملوک اور زبانوں کی تاریخ تھی۔ اس کے مصنف عبید بن شریہ کو یمن سے منگایا گیا تھا۔ [1] (ابن ندیم، ص: 132)
یزید بن معاویہ کی فصاحت اور خلفاءِ بنو امیہ کی خطابت تاریخ کے مسلّمات سے ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کے دور حکومت میں اسلامی علوم سے بے اعتنائی برتی جاتی؟
نتائج:
اوپر کی گزارشات سے مندرجہ ذیل نتائج کا سمجھنا مشکل نہ ہو گا:
(1) امت کا یہ دور حدیث کو شرعاً حجت سمجھتا تھا، اسی لیے وہ اس کی حفاظت کے لیے فکر مند تھا۔ رواۃ اور روایت پر دونوں لحاظ سے اس وقت تنقید ہوتی تھی۔
(2) اس وقت جمع حدیث، کتابت حدیث اور حفظ حدیث کا عام رواج تھا۔
(3) خدمت علم اور حفاظت کی فکر صرف علماء ہی کو نہ تھی، بلکہ بادشاہ اور امراءِ وقت بھی اس فکر مندی میں شامل تھے۔
(4) جو علماء وقتی مصالح کی بنا پر حدیث لکھنا پسند نہ کرتے تھے، ان کو حکام وقت مناسب ذریعہ سے مجبور کرتے تھے کہ وہ صرف حفظ پر کفایت نہ کریں، بلکہ قلم کو بھی اس حفاظت میں شریک کریں۔
(5) چنانچہ اس مسئلہ میں اکثر علماء کی رائے بدل گئی اور انہوں نے حکومت کی خوشنودی کے علاوہ خدمت علم اور خدمت کے جذبہ سے یہ کام کیا۔ ان میں امام زہری اور ان کے رفقاء اور تلامذہ کا نام سرفہرست ہے۔
(6) ان محدثین اور ائمہ سنت کا تعلق منافقین عجم سے نہ تھا، بلکہ حکومت اور عامۃ المسلمین کی خدمت کے سوا کوئی جذبہ یہاں کار فرما نہ تھا۔
(7) جب تمام لوگ یا اکثر بادشاہ اس کو علمی اور دینی بلکہ ملکی ضرورت تصور کرتے ہوں، تو عمر بن عبدالعزیز کے سیاسی اسباب یا ابوبکر بن حزم کا عزل اور علیحدگی کوئی اثر نہیں ڈال سکتی۔
(8) یہ کام 101ھ سے کہیں پہلے بلکہ 50ھ سے بھی پہلے شروع ہو چکا تھا۔
[1] الفهرسة لابن نديم (ص: 132) الإصابة (5/115)