کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 50
نوازا ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بیک وقت تقریر، تحریر اور تدریس میں مہارت تامہ رکھتے ہوں۔ بسا اوقات ایک اچھا مقرر اچھا مدرس نہیں ہوتا اور اچھا مدرس اچھا مقرر نہیں ہوتا اور پھر بہت ہی کم اچھا مقرر اور اچھا مدرس ماہر انشا پرداز بھی ہوتا ہے، لیکن خالق فیاض نے مولانا المحترم کو ان تینوں چیزوں سے حصہ وافر عطا کیا ہے۔ خطابت اور تدریس تو آپ کا روز کا کام ہے، لیکن اپنی بے شمار مصروفیات اور ذمہ داریوں کی بناء پر لکھنے کے لیے کم وقت نکال پاتے ہیں، لیکن جب بھی لکھتے ہیں، تو خوب لکھتے ہیں۔ تحقیق و تدقیق کے ساتھ ساتھ عبارت میں دلکشی، دلآویزی اور ہلکا پھلکا طنز آپ کی تحریر کا خاصہ ہے۔‘‘ (الاعتصام، 20 اکتوبر، 1947ء، ص: 8) 2۔ مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ حضرت سلفی رحمہ اللہ کے طرز نگارش کے متعلق لکھتے ہیں: ’’وہ جہاں ایک قادر الکلام خطیب تھے، اس کے ساتھ ساتھ تحریر و انشاء میں بھی ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ درس و تدریس اور جماعتی مصروفیتوں کے باعث وہ خواہش کے مطابق چنداں لکھ تو نہ سکے، مگر جس قدر بھی لکھا، اس کا نقش ہمیشہ کے لیے ثبت ہو گیا، جس میں ثقاہت، زبان کی لطافت، بیان کی نزاکت اور سنجیدگی کا سب نے اعتراف کیا۔ وہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑے نازک فقہی مسائل کو زیر بحث لاتے ہیں۔ ایک طبیب حاذق کی طرح نشتر بھی چلاتے ہیں، مگر کہیں ٹیس محسوس ہونے دیتے۔ اپنے مخاطب کا بھرپور تعاقب کرتے ہیں، مگر اس کے ادب و احترام کے منافی کوئی چیز نوک قلم پر نہیں لاتے۔‘‘ 3۔ حضرت سلفی رحمہ اللہ کی سوانح نگار محترمہ سعدیہ ارشد حضرت سلفی رحمہ اللہ کے انداز تحریر کے متعلق لکھتی ہیں: ’’اردو انشا پردازی میں آپ صاحب طرز تھے، جس میں روانی، سلاست، برجستگی، الفاظ کا چناؤ اور پھر ان کا جڑاؤ اور پھر محل کے مطابق اشعار کی آمد، امام الہند مولانا ابو الکلام کی طرح آیات قرآن کا برمحل استعمال اور فارسی، عربی اور اردو اشعار کو عبارت میں نگینہ کی طرح جڑتے ہیں۔ ان کی تصانیف سے ان کے عمیق مطالعہ، تحقیقی اسلوب اور علمی