کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 498
[1]معاملہ اہم اور عدم احتیاط سے برے نتائج کا کھٹکا ہو۔ حدیث کا یہ مقام اس صورت صحیح ہو سکتا ہے کہ اسے اہل سنت کی طرح حجت شرعی سمجھا جائے، ورنہ اس احتیاط، تحقیق اور تثبت کی ضرورت ہی کیا ہے، جب شرعاً اس کا ماننا ضروری ہی نہیں؟ اس مقام کو سامنے رکھتے ہوئے صحابہ کے زمانہ سے اس کے حفظ و تدریس اور ضبط و تحریر کا انتظام ہو گیا اور علمی حلقے اس فکر میں ہو گئے کہ وضع و تخلیق کی وجہ سے اس چشمہ صافی کو مکدر نہ کیا جا سکے، اس لیے حدیث کی حفاظت دونوں طریق سے کی گئی، نہ صرف حفظ پر اعتماد کیا گیا اور نہ ہی تحریر و کتابت کو آخری اور قطعی ذریعہ سمجھا گیا، بلکہ تدریجی ارتقاء اور وقت کے تقاضوں کے مطابق جب کسی طریق کی ضرورت اور اہمیت محسوس ہوئی، اسے استعمال فرمایا گیا۔ تدوین علم کے مراحل: تدوین علم کا یہ دور پہلی صدی کے آخر تک رہا۔ پہلی صدی کے آخری سالوں میں ائمہ نے جو کتابیں لکھیں، ان میں احادیث کے ساتھ صحابہ و تابعین کے فتوے بھی جمع کر دیے گئے۔ اس قسم کا ذخیرہ امام زہری رحمہ اللہ کے پاس بہت زیادہ تھا۔ [2]1 اس نوع کی تصانیف پہلی صدی کے اواخر میں کافی تھیں، چنانچہ مختلف شہروں میں ائمہ نے اس نہج پر فن حدیث کی خدمت کی۔ ابن جریج نے مکہ میں، امام مالک اور ابن اسحاق نے مدینہ میں، ربیع بن صبیح، سعید بن عروبہ اور حماد بن سلمہ نے بصرہ میں،
[1] اطمینان کی بدولت اس مجموعہ کو جلا دیا۔ بعض لوگ اس اثر سے کتابت حدیث کے عدم جواز پر استدلال کرتے ہیں، لیکن یہ اثر مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر ناقابل استدلال ہے: (1) اس کی سند میں ’’علي بن صالح‘‘ مجہول راوی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کی سند میں بعض قابل نظر راوی ہیں۔ (الأنوار الكاشفة للمعلمي: 38، دراسات في الحديث النبوي: 1/93) (2) اس اثر کو حافظ ذہبی، ابن کثیراور دیگر اہل علم نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (تذكرة الحفاظ: 1/5، كنز العمال: 10/175) (3) اس اثر سے کتابت حدیث کا جواز ثابت ہوتا ہے، کیونکہ انہوں نے پہلے احادیث لکھیں، بعد ازاں نقل حدیث میں عدم اطمینان کی بدولت اس کو جلا دیا۔ اگر ان کے نزدیک کتابتِ حدیث جائز نہ تھی، تو ابتداءً ہی احادیث کو ضبط تحریر میں نہ لاتے۔ اس اثر کے الفاظ سے صراحتاً ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے کتابت حدیث سے ممانعت کی بنا پر احادیث نہیں جلائی تھیں، بلکہ نقل حدیث میں واسطے پر عدم اطمینان کی وجہ سے اس مجموعہ کو جلا دیا تھا۔ (4) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کتابتِ حدیث ثابت ہے۔ (صحيح البخاري: برقم: 1380) اور ان کی موجودگی میں عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر احادیث لکھا کرتے تھے۔ (مسند أحمد: 2/196) [2] 1 دیکھیں: جامع بيان العلم (1/156)