کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 497
’’علم کو تحریر سے پابند کر دو۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما 68ھ میں فوت ہوئے اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے 96 یا 93ھ میں انتقال فرمایا۔ [1] اس سے ظاہر ہے کہ پہلی صدی کے قریباً وسط میں حدیث لکھنے اور اس کے تحریری ضبط کا رواج عام ہو گیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے انتقال تک تحریر کی ضرورت محسوس ہوئی، احادیث کا لکھنا عام ہو گیا۔ اسی صورت حال کو میں نے تدوین علم سے تعبیر کیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فتوؤں کا بہت سا حصہ مشکوک سمجھ کر ضائع فرما دیا۔ [2] اس سے فن حدیث کی اہمیت، اس کی تدوین اور اس کی حجیت کا بین ثبوت ملتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے: ’’اگر اہل بدعت مجملاتِ قرآن سے استدلال کریں، ’’فاضربوهم بالسنن‘‘ تو انہیں سنت سے جواب دو۔‘‘ [3] صحابہ کا تثبت: اوائل صدی میں رواۃ پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ احادیث کے بیان پر حلف لیا جاتا، شہادت طلب ہوتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو اس معاملہ میں اس قدر محتاط تھے کہ بعض صحابہ کو کہنا پڑا: ’’لا تكونن و بالا علي أصحاب رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ [4] ’’آپ کی یہ شدت صحابہ کے لیے وبال جان ہو رہی ہے!‘‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی کتابوں کا ایک مجموعہ جلا دیا۔ (تذكرة الحفاظ) [5] یہ روایت بشرط صحت تثبت کی دلیل ہے۔ [6] اس قسم کی احتیاط اسی وقت کی جاتی ہے، جب
[1] الإصابة لابن حجر (4/151، 1/128) [2] مقدمة صحيح مسلم (ص: 12) [3] سنن الدارمي (1/62) الفاظ مختلف ہیں۔ [4] صحيح مسلم: كتاب الآداب، باب الاستئذان، رقم الحديث (3154) و لفظه’’فلا تكونن عذابا علي أصحاب رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم!‘‘ [5] تذكرة الحفاظ (1/5) [6] بشرط صحت یہ روایت اس بنا پر تثبت کی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نقل حدیث میں عدم ---