کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 495
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: قسطنطنیہ پہلے فتح ہو گا یا رومیہ؟ فرمایا: ہرقل کا شہر مسلمان پہلے فتح کریں گے۔‘‘
اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے احادیث لکھنے کا ذکر ہے۔ تدوین علم کا یہی مطلب ہے کہ اس کے حلقہ ہائے درس قائم ہوں، اس علم کی اشاعت کے متعلق اساتذہ فن مخصوص ہدایات دیں۔ یہ سب کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے سامنے ہوا، آپ کے حلقہ درس میں ہوا۔ [1] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علم کی تبلیغ کے متعلق کھلی اور واضح ہدایات دیں، اس فن میں جھوٹ بولنے سے خاص طور پر منع فرمایا۔
(5) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے جہاں اپنے تلامذہ کو حدیث لکھنے سے روکا، اس میں بھی ایک خاص ہدایت فرمائی ہے:
’’ولن نجعله قرآنا، ولكن احفظوا‘‘ [2]
’’ہم احادیث کو قرآن کا ہم پایہ نہیں کرنا چاہتے، تمہیں احادیث ضبط کرنی چاہئیں۔‘‘
اس سے ظاہر ہے کہ صحابہ میں درس و تدریس اور حفظِ احادیث کا مشغلہ عام تھا۔ اساتذہ قرآن اور احادیث کے امتیازی مقام کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے اور اپنے شاگردوں کو اس کے متعلق واضح ہدایات فرماتے۔
6۔ تدوین علم اور تدوین کتب:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ خیر میں اسی طرح خلفاء کے دور میں کتب احادیث کی تدوین واقعی نہیں ہوئی اور نہ ہی صحابہ کے زمانہ میں تصنیف و تالیف کا عام مشغلہ رہا، لیکن تدوین کتب اور دواوین سنت کی تدوین و اشاعت کے لیے جن ابتدائی امور کی ضرورت تھی، ان کی تیاری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہی شروع ہو گئی تھی۔ حدیث کی چھان بین اور صحت کے لیے شہادتیں اور قسمیں لینا خلیفہ ثانی نے شروع کیا۔ [3] رواۃ پر تنقید اور اس میں تاریخی موشگافیاں پہلی صدی کے آغاز ہی میں شروع ہو گئیں۔ [4] (مقدمه صحيح مسلم)
[1] اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کتابتِ حدیث کی عملی مثال کے لیے دیکھیں: مسند أحمد (2/196)
[2] كتاب العلم لأبي خيثمة (ص: 24) سنن الدارمي (1/133) تقييد العلم (ص: 38) حضرت ابو سعید خدری سے بھی بعض احادیث لکھنا مروی ہے۔ دیکھیں: سنن أبي داود (3648) مسند أحمد (3/60) تقييد العلم (ص: 93)
[3] تثبت کے لیے شہادتیں طلب کرنا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ (مسلم، برقم: 2154) لیکن قسم لینا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ دیکھیں: الكفاية (ص: 83)
[4] مقدمه صحيح مسلم (ص: 12)