کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 494
قرآن اور حدیث دونوں کو شامل ہے۔ ’’ بَلِّغوا‘‘ اور ’’كَذَبَ عَلي النَبي‘‘ کی مذمت سے حدیث کا مقام اور اس کی حجیت بالکل ظاہر ہے۔ (3) ((حَدِّثُوا عَنِّي مَا تَسْمَعُونَ، وَلَا تَقُولُوا إِلَّا حَقًّا، وَمَنْ كذب عَلَيَّ بني له بيت في جهنم يرتع فيه)) [1](طبراني عن أبي قرصافه، بحواله قواعد التحديث، ص: 62) ’’جو کچھ مجھ سے سنو، اسے عوام تک پہنچاؤ اور سچ کہو، جو مجھ پر جھوٹ بولے گا، اس کا مقام جہنم ہے۔‘‘ اس حدیث کے الفاظ نے آیت کے مفہوم کی وضاحت فرما دی ہے۔ ان ارشادات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد بالکل واضح ہے۔ حدیث کا ضبط، تبلیغ اور شرعاً اس کی ضرورت بالکل عیاں ہے۔ صحابہ میں اس کا عملی اثر بھی کتب سنت سے واضح ہے۔ اس تبلیغ کی تاکید قرآن میں بھی مذکور ہے اور یہ احادیث ان قرآنی آیات کی عملی تفسیر ہیں۔ اس کا تذکرہ اپنی سابقہ گزارشات میں بارہا کر چکا ہوں۔ (4) ((عَنْ عَبْدُ اللّٰه بِنْ عُمْرُوْ بِنْ العَاصْ قَالَ : بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَكْتُبُ ، إِذْ سُئِلَ رَسُولُ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَيُّ الْمَدِينَتَيْنِ تُفْتَحُ أَوَّلًا : قُسْطَنْطِينِيَّةُ أَوْ رُومِيَّةُ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰه صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَدِينَةُ هِرَقْلَ تُفْتَحُ أَوَّلًا )) [2](دارمي، ص: 68) ’’ہم آنحضرت کے حلقہ درس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات لکھ رہے تھے کہ
[1] المعجم الكبير للطبراني (3/18) المحدث الفاصل (ص: 172) الكني والأسماء للدولابي (1/145) اس کی سند میں واقع ’’عزة بنت عياض‘‘ کے بارے میں توثیق و تعدیل نہیں مل سکی۔ دیکھیں: تكملة الإكمال للبغدادي (4/157) اسی طرح اس کی سند میں ’’أيوب بن علي بن الهصيم الكناني الفلسطيني‘‘ کے بارے میں بھی کوئی توثیق نہیں ملی۔ امام ابو حاتم فرماتے ہیں: ’’شيخ‘‘ (تاريخ الإسلام للذهبي: 18/181) [2] مسند أحمد (2/176) سنن الدارمي (1/138) مصنف ابن أبي شيبة (4/219) المستدرك (4/553) مسند احمد اور مصنف وغیرہ کی روایت میں ہے کہ عبداللہ بن عمرو سے سوال کیا گیا کہ سب سے پہلے قسطنطنیہ فتح کیا جائے گا یا رومیہ؟ تو انہوں نے ایک صندوق منگوایا اور اس میں ایک کتاب نکال کر پڑھنے لگے۔ اس کے بعد اس روایت کے بھی وہی الفاظ ہیں جو مؤلف رحمہ اللہ نے نقل کیے ہیں۔ امام ہیثمی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح غير أبي قبيل وهو ثقة‘‘ (مجمع الزوائد: 6/323) نیز اس حدیث کو امام حاکم، ذہبی، عبدالغنی مقدسی اور البانی رحمہم اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ (السلسلة الصحيحة: 1/33)