کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 493
انسانی دلوں کو خدمت کے لیے ہر وقت آمادہ کرنا، یہ اس کی ذمہ داری ہے۔ قرآن کے لیے ہر وقت جمع، ہر وقت حفظ اور حسب اقتضاءِ وقت کتابت کا میسر آنا، یہ خدا کا کام تھا۔ تورات و انجیل خدا کا کلام ہیں، لیکن ان کو یہ اسباب ہر وقت میسر نہ آ سکے، اس لیے وہ آج موجود ہونے کے باوجود ناپید ہیں۔ علم حدیث کی تدوین: یہی حال احادیث کا ہے، اس کے جمع اور تدوین کا کام تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں شروع ہو گیا تھا: (1) ((رَحِمَ اللّٰه امْرأ سَمع كَلَامِيْ فوعَاهَا ثُمَّ أداهَا كَمَا سَمعهَا)) [1] ’’اللہ اس شخص پر رحم فرمائے، جس نے میرا کلام سنا اور اسے بعینہٖ دوسروں تک پہنچایا۔‘‘ اس حدیث میں دو چیزیں بالکل ظاہر ہیں: (1) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد صحیح ضبط کرنے کی ترغیب۔ (2) پھر صحیح طور پر ادا کرنے کا حکم۔ اگر یہ ارشادات شرعاً حجت نہ ہوں، تو یہ مؤکد پابندی بالکل بے سود ہے۔ (2) ((بَلِّغوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً. حدِّثُوا عن بَنِي إِسرائِيلَ و لا حَرَجَ۔مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا ، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ)) [2](أحمد، بخاري، ترمذي) ’’مجھ سے جو کچھ سنو، اسے پہنچاؤ۔ بنی اسرائیل کی باتیں بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جس نے مجھ پر جان کر جھوٹ بولا، اس کی جگہ جہنم ہے۔‘‘ سیاق بتا رہا ہے کہ آیت سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام ارشادات ہیں۔[3] آیت کا لفظ
[1] یہ حدیث مختلف الفاظ اور طرق کے ساتھ مروی ہے۔ دیکھیں: سنن أبي داود (3660) سنن الترمذي (2657) بعض اہل علم نے اس حدیث کو متواتر احادیث میں بھی ذکر کیا ہے۔ دیکھیں: كشف الخفاء برقم (2813) نظم المتناثر (ص: 4) بعض روایات میں مولف رحمہ اللہ کے ذکر کردہ بعض الفاظ بھی موجود ہیں۔ دیکھیں: جزء فيه قول النبي صلي اللّٰه عليه وسلم نضر اللّٰه امرءاً سمع مقالتي فأداها لأبي عمرو المديني (ص: 31) الكفاية للخطيب (ص: 191) [2] صحيح البخاري: كتاب الأنبياء، باب ما ذكر عن بني إسرائيل، رقم الحديث (3274) مسند أحمد (2/159) سنن الترمذي: كتاب العلم، باب ما جاء في الحديث عن بني إسرائيل، رقم الحديث (2669) [3] دیکھیں: فتح الباري (6/498)