کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 492
تواتر معنی:
یہ یقین و تواتر کی بحث قرآن عزیز کے الفاظ تک ہے، کیونکہ قرآن مجید کے الفاظ واقعی قطعی الثبوت اور متواتر ہیں۔ جہاں تک قرآن عزیز کے مفہوم کا تعلق ہے، اس پر اگر معاف فرمایا جائے، تو عرض کروں گا کہ صرف اہل قرآن کی مختلف پارٹیاں اگر فہم قرآن میں متفق ہو جاتیں، تو ہمیں خوشی ہوتی۔ مولوی عبداللہ صاحب آنجہانی سے شروع ہو کر مولوی احمد دین، مولوی عنایت اللہ مشرقی، مولوی محمد رمضان گوجرانوالہ، رشید الدولہ گجرات، ملتان اور ڈیری غازی خاں کے منکرین حدیث، ادارہ طلوع اسلام اور مصنفین معارف القرآن اگر کسی ایک مفہوم کی تعیین پر مطمئن ہو جائیں، تو ہم کوشش کریں گے کہ آپ کے معانی کو متواتر تصور کر لیا جائے۔ لیکن کون نہیں جانتا کہ صورت حال اس سے بالکل مختلف ہے۔ پھر آپ حضرات غور فرمائیں کہ تواتر لفظی اور کتابت کو صحت حدیث کے لیے معیار قرار دینے سے کیا حاصل ہے؟
مفہوم تو قرآن عزیز کے لکھا جانے کے باوجود ظنی ہو گا اور ہر مفہوم پر الفاظ کی دلالت ظنی ہو گی۔ خیال ہے کہ مولانا اسلم جیراجپوری ان گزارشات پر غور کرنے میں ادارہ طلوع اسلام کی اعانت فرمائیں گے اور یقین فرمائیں گے کہ ظن کے بھوت اور انسانی مساعی کے نقائص میں حفظ و کتابت مساوی ہیں۔ حدیث اس لیے ظنی ہے کہ اس کی حفاظت کے تمام ذرائع انسانی حدود کے اندر ہیں، تو قرآن عزیز کی حفاظت کے لیے اس دنیا میں ملائکہ کی کون سے جماعت متعین فرمائی گئی ہے؟ اس شبہ میں مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی بھی اہل قرآن کی طرح انسانی نارسائیوں کے شاکی ہیں،[1] اس لیے وہ بھی سوچیں کہ انسان انسانی اسبابِ تحفظ سے بلند پردازی پر کہاں تک قدرت رکھتا اور اس ظن کا دامن کس قدر وسیع ہے اور اس سے بچنا کس قدر ناممکن؟ ﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰه نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286)
اسباب حفاظت:
حفظ اور کتابت میں نقائص ہیں، جیسے تفصیلاً عرض ہوا۔ ان دونوں کے ملنے سے بھی نقائص دور نہیں ہو سکے، البتہ ان کے ساتھ خدا تعالیٰ کی ذمہ داری ضروری ہے۔ انسانی اسباب کو ہر وقت ہموار کرنا،
[1] دیکھیں: تفهيمات(1/355)