کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 491
ذریعہ کتابت ہی تھا۔ ان کا نزول بھی الواح مکتوبہ کی صورت میں رہا، ارباب مذاہب نے بھی ان کی حفاظت کتابت ہی سے کی۔ کیا پھر کتابت انہیں من و عن محفوظ رکھ سکی؟ اگر کتابت میں مکتوب کی حفاظت کے لیے کوئی جادو کا اثر ہوتا، تو ان کتابوں کی یہ نہ حالت ہوتی۔ آج عہد جدید میں قریباً 21 آیات ہیں، جن کے متعلق مسیحی علماء یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ متن کا جزو ہیں یا حاشیہ؟ آج ان کتابوں کے تراجم ہمارے سامنے ہیں، اصل زبان میں جو نسخے پائے جاتے ہیں، وہ بھی کسی زبان سے ترجمہ ہو کر آئے ہیں۔ اصل مکتوب نسخے جو الواح مکتوبہ یا صحف کی صورت میں نازل ہوئے تھے، آج کی دنیا میں ناپید ہیں اور کتابت انہیں محفوظ نہیں رکھ سکی۔ اس ناکام تجربہ کے لیے حدیث اور ائمہ حدیث کو کیوں مطعون کیا جا رہا ہے؟ اگر حدیث زمانہ نبوت میں نہیں لکھی گئی، تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑا؟ جب کتابت کی ضرورت محسوس ہوئی، اسی وقت لکھنے والے پیدا ہو گئے۔
قرآن عزیز:
قرآن عزیز لفظاً متواتر ہے اور اس متواتر کا تعلق بھی حفظ و قراءت سے ہے، کتابت سے نہیں۔ سب سے پہلا نسخہ جو خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے حکم سے لکھا گیا، اس کی حیثیت تذکرہ اور ذاتی یادداشت کی تھی۔ خلیفہ ثالث نے چند مزید نسخے لکھوا کر مختلف صوبوں اور صدر مقامات میں بھیجے۔ ان کی تعداد بھی چھ سات سے زیادہ نہ تھی۔ [1] یہ عدد بھی تواتر کے لیے مفید نہیں، بلکہ اس کی حیثیت بھی حکومت کے تذکرہ ہی کی ہے، تاکہ تصحیح کے لیے بوقت ضرورت اس سرکاری دستاویز کی طرف رجوع کیا جا سکے۔ یہاں کتابت سے ضبط و تصحیح کا فائدہ تو ہوا، مگر اتنے نسخوں کے وجود سے نہ مصطلحہ ظنیت رفع ہو سکتی ہے، نہ تواتر اصطلاحی ثابت ہو سکتا ہے اور نہ قرآن عزیز کی حجیت میں کوئی نقص واقع ہو سکتا ہے۔ اگر حجیت کے لیے لکھنا ضروری ہو، تو شاید کوئی مسخرہ قرآن عزیز کے اس دور میں اس کی حجیت کا انکار کر دے، جبکہ خلیفہ اول نے اس کے لکھنے کا حکم نہیں دیا تھا اور کچھ بعید نہیں کہ ہمارے مجتہدین کہیں ایسا ہی فرمانے لگیں!
[1] صحيح البخاري: كتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، رقم الحديث (4701، 4702) نیز دیکھیں: فتح الباري (9/20)