کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 490
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور شفا نے لکھنا سیکھا۔ [1] ان حالات میں کوئی عقلمند یہ کہہ سکتا ہے کہ حدیث لکھنا شرعاً ممنوع تھا؟ مناسب ہو گا کہ منکرین حدیث اس موضوع پر سنجیدگی سے غور کریں۔ ﴿لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا﴾ (طہٰ: 113) حفظ و کتابت میں موازنہ: قوتِ حافظہ پر ہمارے ان دوستوں کو اعتماد نہیں۔ روایات کی اصطلاحی ظنیت سے جس قدر شکوک اور اوہام پیدا ہوئے ہیں، اس کی اصل وجہ قوت حافظہ پر بدگمانی ہے۔ کتابت کے بعض نقائص کا تذکرہ میری گزارشات میں بھی آیا ہے، اس سے یہ غلط فہمی نہ پیدا ہو کہ میں صنعتِ کتابت کا منکر ہوں یا کتابت میں جو نقائص پائے جاتے ہیں، ان کی وجہ سے بھی کتابتِ حدیث پر بدگمانی ہے، بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ نقائص سے نہ حفظ خالی ہے نہ کتابت۔ حفظ کے باوجود ہم ظن مصطلح سے مطمئن نہیں ہو سکتے، تو کتابت میں بھی ہمیں اس ظن سے مخلصی میسر نہیں آ سکتی۔ حفظ میں تو ممکن ہے کہ بعض معلومات نسیان کی نذر ہو جائیں، لیکن کتابت کی تصحیفات سے تو حقائق مکتوبہ کا حلیہ ہی بگڑ جاتا ہے۔ کتابت کی بد حواسیاں اتنی خطرناک ہیں کہ حفظ کی خرابیوں کو اس سے نسبت ہی نہیں۔ اس لیے جو لوگ حفظ کی خرابی کی وجہ سے حدیث کو ظنی سمجھتے ہیں، وہ تحریر و کتابت پر کیوں مطمئن ہیں؟ عقل و دانش کی موجودگی میں یہ کیوں کر کہا جا سکتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی احادیث کو دین کا جزو نہیں سمجھتے تھے اور اسی لیے انہوں نے اس کی ضرورت نہیں سمجھی کہ انہیں مرتب کر کے قرآن کی طرح محفوظ شکل میں امت کو دیا جائے؟ یہ استدلال، طریق استدلال قطعی غیر معقول ہے اور واقعات سے بے خبری پر مبنی! کتابت اور آسمانی صحیفے: تورات اور انجیل کا نظم ایسا نہ تھا جسے حافظہ قبول کر سکتا، اس لیے ان کتابوں کی حفاظت کا
[1] سنن أبي داود، كتاب الطب، باب ما جاء في الرقي، رقم الحديث (3887) نیز دیکھیں: فتوح البلدان (3/580) علاوہ ازیں أم كلثوم بنت عقبه، عائشہ بنت سعد اور کریمہ بنت مقداد بھی کتابت اور قراءت کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ (فتوح البلدان: 3/581) مزید برآں عبداللہ بن سعید بن عاص اور عبادہ بن صامت اہل صفہ کو کتابت اور قراءت کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ دیکھیں: مسند أحمد (5/315) الإصابة (2/102)