کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 489
’’من ذكرنا قوله في هذا الباب فإنما ذهب في ذلك مذهب العرب لأنهم كانوا مطبوعين علي الحفظ مخصوصين بذلك ۔۔ الخ‘‘ [1] ’’جن لوگوں سے ہم نے لکھنے کے خلاف اقوال نقل کیے ہیں، یہ قدماءِ عرب کے مسلک کو پسند کرتے تھے، وہ طبعاً حفظ کو ترجیح دیتے تھے۔ یہ ان کی فطری خصوصیت تھی۔‘‘ اسی طرح صفحہ (68) میں فرماتے ہیں: ’’قال أبو عمر: من كره كتابة العلم إنما كرهه لوجهين: أحدهما: أن لا يتخذ مع القرآن كتاب يضاهي به، ثانيهما: ولئلا يتكل الكاتب عليٰ ما كتب فلا يحفظ فيقل الحفظ‘‘ [2] ’’جن حضرات نے لکھنے سے روکا ان کے دو مطلب تھے کہ ان تحریروں کو قرآن کے برابر اور مشابہ نہ سمجھا جائے اور کتابت پر اعتماد نہ کیا جائے، تاکہ حفظ میں تعطل نہ پیدا ہو جائے۔‘‘ حفظ و کتابت حدیث: حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک لکھا ہوا صحیفہ موجود تھا، جو ہمیشہ ان کی تلوار کے میان میں رہا۔ [3] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف ممالک اور حکومتوں کی طرف خطوط لکھوائے۔ زکوٰۃ کا نصاب اور اس کی مقدار ایک مکتوب حکم نامہ کی صورت میں اطراف ممالک تک پہنچائی۔ [4] زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ، حنظلہ بن ربیع رضی اللہ عنہ، خالد بن سعید رضی اللہ عنہ، ابان بن سعید رضی اللہ عنہ، علاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بطور پرائیویٹ سیکرٹری کام کیا۔
[1] جامع بيان العلم (1/263) [2] جامع بيان العلم (1/260) [3] صحيح البخاري: كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، باب ما يكره من العتمق والتنازع في العلم والغلو في الدين والبدع، رقم الحديث (6870) صحيح مسلم: كتاب الحج، باب فضل المدينة و دعاء النبي صلي اللّٰه عليه وسلم فيها بالبركة، رقم الحديث (1370) [4] تفصیل کے لیے دیکھیں: دوام حدیث (1/143)