کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 488
اہل کتاب کی احادیث پر احادیث نبویہ کو قیاس کرنا غلطی ہے۔ اگر عمداً ایسا کیا جائے، تو خلاف دیانت!
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ لکھنا پسند نہیں فرماتے تھے، [1] لیکن اس کے بعد انہوں نے حدیث کی متعدد کتابیں لکھیں، چنانچہ بشیر بن نہیک فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے احادیث لکھیں اور آتی دفعہ میں نے وہ کتاب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر پیش کی اور ان سے اجازت حاصل کی۔ [2]
یہی حال حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہے۔ عنترہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں لکھنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ [3] شعبی فرماتے ہیں:
’’ما كتبت سوداء في بيضاء قط، ولا استعدت حديثا من إنسان مرتين‘‘ [4]
’’نہ میں نے کبھی لکھا اور نہ ہی کبھی کوئی بات دوبارہ دریافت کی۔‘‘
استعادت یہ ہے کہ تحدیث بالنعمۃ کے طور پر وہ اپنے حافظہ کی جودت اور اچھائی کا ذکر فرماتے ہیں کہ نہ مجھے لکھنے کی ضرورت ہے اور نہ بار بار دریافت کرنے کی، اس سے حدیث لکھنے کے خلاف استدلال خوش فہمی ہے۔
ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ تحریری علم مفید نہیں، اس میں تحریر پر اعتماد ہوتا ہے۔ [5] كما قيل:
’’علم درجلد خويش بايد نه در جلديش‘‘ [6]
یہ ایک نظریہ تھا اور عرصہ تک ائمہ حدیث کو اصرار رہا۔ وہ تحریر سے حفظ پر زیادہ یقین اور اعتماد کرتے تھے۔ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[1] سنن الدارمي (1/133) كتاب العلم لأبي خيثمة (ص: 140) جامع بيان العلم (1/253) تقييد العلم (ص: 42)
[2] سنن دارمي (1/138) كتاب العلم لأبي خيثمة (ص: 32) المدخل إلي السنن الكبريٰ (2/243)
[3] سنن دارمي (1/139) نیز دیکھیں: صحيح البخاري، برقم (2379) صحيح مسلم في المقدمة (ص: 22) مصنف ابن أبي شيبة (5/314) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اتنی زیادہ کتابیں تھیں کہ اونٹ پر اٹھائی جاتیں۔ طبقات ابن سعد (5/293) المدخل إلي السنن الكبريٰ للبيهقي (2/244)
[4] سنن دارمي (1/135) كتاب العلم لأبي خيثمة برقم (28) جامع بيان العلم (1/257)
[5] جامع بيان العلم (1/260)
[6] علم اپنی جلد میں ہونا چاہیے، نہ کہ دوسرے کی جلد میں۔