کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 487
’’لوگوں نے احادیثِ علماء کا اتباع کیا اور کتاب اللہ کو چھوڑ دیا تو تباہ ہوئے۔‘‘ اس سے احادیثِ رسول مراد لینا غلطی ہے یا مغالطہ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بھی یہی حال ہے۔ فرماتے ہیں: ’’لا كتاب مع كتاب اللّٰه ‘‘[1]کوئی کتاب کتاب اللہ کی ہمسر نہیں۔ دوسرے مقام پر فرمایا ہے: ’’لا أشوب كتاب اللّٰه بشيء أبدا‘‘ [2] ’’میں کتاب اللہ کے ساتھ کوئی آمیزش گوارا نہیں کر سکتا۔‘‘ زید بن ثابت مشتبہ احادیث کا لکھنا ناپسند فرماتے تھے: ’’فقال: لعل كل شيء حدثتكم به ليس كما حدثتكم‘‘ (جامع، ص: 65) [3] ’’جو چیز میں بطور حدیث بیان کروں، ممکن ہے وہ فی الواقع حدیث نہ ہو۔‘‘ یہ احتیاط پتہ دیتی ہے کہ حدیث حجت ہے اور ائمہ اسے حجت شرعی سمجھتے تھے، ورنہ اس تاکید اور احتیاط کی ضرورت ہی کیوں محسوس ہوئی؟ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے علقمہ اور اسود کی ایک کتاب دھو ڈالی۔ ابو عبید، اس روایت کے راوی، فرماتے ہیں: ’’إن هذه الصحيفة أخذت من أهل الكتاب فلهذا كره عبداللّٰه النظر فيها‘‘[4](جامع: 1/22) ’’یہ کتاب اہل کتاب کے نوشتوں سے ماخوذ تھی، اس لیے عبداللہ بن مسعود نے اسے دیکھنا بھی پسند نہ فرمایا۔‘‘
[1] جامع بيان العلم (1/248)، یہ اثر امام مالک رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے، لہٰذا منقطع اور ضعیف ہے۔ [2] جامع بيان العلم (1/248) نیز دیکھیں: مصنف عبدالرزاق (11/257) تقييد العلم (ص: 49) مذکورہ بالا الفاظ کی سند میں عروہ بن زبیر رحمہ اللہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے۔ (جامع التحصيل، ص: 236) سير أعلام النبلاء (4/422) [3] مصنف ابن أبي شيبة (5/315) جامع بيان العلم (1/250) [4] جامع بيان العلم (1/254) اسی طرح کے ایک دوسرے اثر کے بعد امام مرہ ہمدانی فرماتے ہیں: ’’اگر اس صحیفہ میں قرآن مجید یا سنت لکھی ہوتی، تو ابن مسعود اس کو نہ مٹاتے، لیکن وہ اہل کتاب کی کوئی کتاب تھی۔‘‘ سنن دارمي (1/134)