کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 486
ہوئے۔ اس سے آپ کو یہ اندازہ ہو گا کہ اس فتویٰ کی حقیقت کیا ہے؟ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’لَا نَكتبكُم، خذوا منا كَمَا أخذنا مِنْ نَبِيِّنَا صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ (1/61) [1] ’’ہم تمہیں لکھنے کی اجازت نہیں دیں گے، جس طرح ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا، تم بھی اسی طرح سیکھو۔‘‘ دوسرے لفظ اس طرح ہیں؛ ’’فَاحفظوا كَمَا كنا نَحفظ‘‘ ’’تم بھی اسی طرح حفظ کرو، جیسے ہم نے حفظ کیا۔‘‘ تیسرے موقع پر فرماتے ہیں: ’’تريدون أن تجعلوها مصاحف ۔۔ الخ‘‘ کیا تم اسے قرآن بنانا چاہتے ہو؟ اس سے چند امر واضح ہوتے ہیں: (1) وہ حدیث کو قرآن کے ہم پایہ نہیں سمجھتے تھے۔ (2) اس کے باوجود وہ حدیث کا حفظ ضروری سمجھتے تھے، اس سے ظاہر ہے کہ ان کے ہاں حدیث حجت ہے۔ (3) جب مصحف کے متعلق یہ کھٹکا نہ رہے، تو ان کو کتابتِ حدیث پر کچھ اعتراض نہیں۔ رکاوٹ کا حکم صرف وقتی ہے اور ضرورت کے لیے کہ کہیں قرآن عزیز سے اختلاط نہ ہو جائے۔[2] حضرت علی رضی اللہ عنہ احادیثِ علماء اور فتوؤں کو لکھنا ناپسند فرماتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا لکھنا ان کی نظر میں ممنوع تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ جس کے پاس کوئی نوشتہ ہو، اسے دھو ڈالے: ’’إنما هلك الناس حيث تتبعوا أحاديث علمائهم وتركوا كتاب ربهم‘‘[3](1/64)
[1] مصنف ابن أبي شيبه (5/314) تقييد العلم (ص: 37) المحدث الفاصل (ص: 379) جامع بيان العلم (1/246) [2] دیکھیں: تقييد العلم (ص: 57) فتح الباري (1/208) [3] مصنف ابن أبي شيبه (5/314) جامع بيان العلم (1/246) اس کی سند میں ’’جابر بن يزيد الجعفي‘‘ راوی سخت ضعیف ہے۔ (تهذيب التهذيب: 2/41)