کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 482
سوال وہی لوگ کر سکتے ہیں، جو قرآن عزیز کے متعلق ہے پوری کے مریض ہیں!
حدیث کے متعلق مصنفانہ ضبط کا مطالبہ اسی ذہن کی پیداوار ہیں، جو اس کے موقف سے نا آشنا ہے اور اس ماحول سے نا واقف ہے، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشادات فرمائے۔
جس طرح قرآن عزیز کا نزول بمقتضائے ضرورت اور حسب وقوعِ حوادث ہوا، ربط کے باوجود اس میں کوئی فقہی تبویب نہیں یا ترتیب نہیں ہو سکی، اسی طرح حدیث اور اس کی تشریحات ظروف و احوال اور حوادث اور واقعات سے منسلک ہیں، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے مصنفانہ ترتیب سے جمع ہونا مشکل تھا۔ بعد کے آنے والوں نے قرآن میں بھی تبویب کی کوشش کی، احادیث میں بھی فقہی ترتیب سے دفاتر جمع کیے، جو آج حفاظت کے ساتھ ہمارے ہاتھوں میں ہیں۔ یہ ان نوشتوں کی تدریجی صورت ہے، جو مقتضیاتِ احوال کے ساتھ ارتقا کی منازل سے گزرتی رہی۔
5۔ کتابتِ حدیث
اسلام کے ابتدائی دور میں بعض اہل علم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو لکھنا شروع کیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکماً بند کر دیا۔ [1] اس کے بعد بہت سے اہل علم صحابہ اور ائمہ تابعین نے اور بعض دوسرے ائمہ حدیث نے کتابت سے روکنے کی تصریح فرمائی۔ [2] بعض اہل علم نے اسے مطلقاً نہی پر محمول فرمایا اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیال کچھ مدت کافی مقبول رہا۔ بعض اہل علم لکھنے سے روکتے رہے، بعض اپنے نوشتوں کو دھو ڈالتے رہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ بتدریج یہ نظریہ ختم ہو گیا اور تمام اہل علم نے لکھنے کی ضرورت کو قبول کر لیا، [3] البتہ ہر تحریر کے لیے شیخ کی اجازت ضروری تصور ہوئی۔ عمرو بن شعیب کے نوشتہ میں یہی کمی تھی۔
منکرین حدیث کے کیمپ سے اس نہی کی بالکل نئی توجیہ فرمائی گئی۔ ان کا خیال ہے کہ حدیث کی تحریر سے روکنا اس لیے تھا کہ حدیث حجت نہیں اور شرعاً اسے اصول اور استناد کی حیثیت حاصل نہیں، چنانچہ ’’طلوع اسلام‘‘ (50ء شمارہ: 9) میں تمنا صاحب کے مضمون کے ضمن میں اس کا
[1] صحيح مسلم: كتاب الزهد والرقائق باب التثبت في الحديث و حكم كتابة العلم، رقم الحديث (3004) نیز دیکھیں: تقييد العلم (ص: 49)
[2] دیکھیں: تقييد العلم (ص: 29) جامع بيان العلم (1/129)
[3] بالفاظِ دیگر کتابتِ حدیث کے جواز و استحباب پر اجماع ہو گیا، جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔