کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 481
تھی اور حدیث کے مفہوم اور مقاصد کا تحفظ مقصود تھا۔ قرآن میں قانون کی اساس اور بنیادی نصوص تھے اور حدیث میں اس کے مقاصد کی وضاحت کے لیے ہدایات اور اس ماحول کا تحفظ جس میں قرآن عزیز نازل ہوا۔ قرآن عزیز کے فہم میں لغت پر اعتماد کرتے ہوئے اس ماحول کو نظر انداز کرنا، جس میں وہ نازل ہوا، قرآن اور لغت دونوں پر ظلم ہے۔ آج بھی تقاریر کے فہم میں ماحول جس قدر معاون ہو سکتا ہے، لغت اس کی ضرورت کا بدل نہیں پیش کر سکتی۔
اس لیے حدیث کے متعلق یہ مطالبہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کتابی صورت کیوں نہ دی؟ اس کی حیثیت بال بر سے زیادہ نہیں۔ آیات قرآنی میں ربط کے باوجود اس کی مصنفانہ تبویب نہیں کی گئی، تکرارِ واقعات میں ایسے مقاصد پیش نظر رکھے ہوئے ہیں جس میں انسانی تصانیف کا تتبع نہیں کیا گیا، بلکہ ہدایت کی اہمیت پیش نظر رہی۔
حدیث کا موقف زمانہ نبوت میں:
حدیث جس میں قرآن اور امت دونوں کی خدمت مطلوب تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تصنیف و کتابت کی قیود میں کیونکر آ سکتی تھی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ مصنفانہ انداز میں لکھا ہے اور نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت مصنف اسے مرتب فرمایا، بلکہ بعض وقت قرآن کے بعض مضامین کی وضاحت فرمائی۔ کبھی ایسے احکام ارشاد فرمائے، جن پر قرآن ساکت تھا، کبھی قرآن کی بعض ہدایات پر عمل فرمایا، جسے صحابہ نے نقل کر لیا، کبھی کسی غلطی پر متنبہ فرمایا، کبھی قرآن سے استنباط فرمایا، کبھی کام کو بنظر استحسان دیکھا، کبھی کسی فعل پر سکوت فرمایا، یہ حوادث کبھی سفر میں ہوئے، کبھی حضر میں، کبھی رات کو، کبھی دن کو، کبھی جماعت کے سامنے، کبھی منفرداً، کبھی گھر کی چار دیواری میں، کبھی محکمہ قضاء میں، کبھی وعظ و نصیحت کے طور پر، کبھی اپنے ما فی الضمیر کا اظہار خوش طبعی و مذاق سے فرمایا، کبھی رنج میں۔ ان تمام حالات اور ان کے مقتضیات کا مصنفانہ انداز سے جمع کرنا مشکل ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کتابت حدیث کا مطالبہ کرنا اس نوعیت کا مطالبہ ہے، جیسے بعض غیر مسلم حضرات کہتے تھے کہ قرآن کتاب تو اچھی ہے، مگر اس میں مصنفانہ ربط نہیں۔ ابواب، فصول اور مقدمات نہیں، ورنہ یہ کتاب بہت ہی مفید ثابت ہوتی۔ غور فرمائیے جن مقاصد کے لیے اور جن ظروف و احوال میں قرآن عزیز نازل ہوا، آیا ان میں تبویب اور فصول ممکن اور مناسب تھے؟ ایسے