کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 480
زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ انہیں اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ احادیث میں حفظ پر اعتماد کی وجہ سے جو حضرات اس فن پر بدگمان ہیں، انہیں سوچنا چاہیے کہ تحریر و کتابت کی تصحیح کے لیے بھی حفظ پر ہی اعتماد کیا جاتا ہے۔ حفظ اور قرآن: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے۔ قرآن عزیز نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امیت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے لیے دلیل قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شروع میں قرآن مجید کو حفظ ہی سے فرماتے، صحابہ کا انحصار بھی حفظ ہی پر تھا، جو لوگ لکھتے یا لکھواتے، وہ حفظ کے بعد ان پرزوں کی حفاظت ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ بعض اس قسم کے نوشتے بکریاں کھا گئیں، [1] اس سے کوئی نقصان محسوس نہیں کیا گیا، کیونکہ حافظہ نے اسے ضبط کر لیا تھا۔ البتہ نوشتہ اگر حافظہ میں نہ ہو تو اس کا ضائع ہونا زیادہ ممکن ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن کو مختلف یاد داشتوں کی صورت میں ضرور لکھا گیا، لیکن اس کی کتابی صورت موجود نہ تھی۔ ترتیب کا زیادہ تر انحصار حافظہ پر ہی تھا، بصورت کتاب حفاظت کا خیال خلیفہ اول کے زمانہ میں پیدا ہوا، جب بعض لڑائیوں میں حافظین قرآن کثرت سے شہید ہو گئے۔ اس وقت حفظ اور ان مختلف یاد داشتوں سے معاً استفادہ کیا گیا۔ [2] قرآن عزیز کی حفاظت میں قریباً پچیس سال تک زیادہ اعتماد حفظ ہی پر رہا اور ترتیب کی حفاظت کے لیے تو حافظہ کے سوا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت ایک مستند نسخہ کی موجودگی کے باوجود جب مختلف صوبوں میں قرآن کی اشاعت کی ضرورت محسوس کی گئی، تو اس وقت بھی حفاظ ہی کی خدمات سے استفادہ کیا گیا، اس لیے اس چیز کے قبول کرنے میں زیادہ تامل کی ضرورت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس کے بھیجنے والے خدا نے دین کے دونوں حصوں کی حفاظت میں حفظ پر اعتماد فرمایا اور دونوں کی حفاظت میں حسب حال جو کچھ مناسب اور ضروری تھا، اس سے چشم پوشی نہیں فرمائی۔ حفاظت اور تدریجی ارتقاء: حدیث اور قرآن میں ایک بیّن فرق ہے، وہ یہ کہ قرآن کریم کے الفاظ کی حفاظت ضروری
[1] دیکھیں: سنن ابن ماجه، برقم (1944) مسند أحمد (6/269) اس کی سند ’’حسن‘‘ ہے۔ [2] صحيح البخاري: كتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن، رقم الحديث (4701)