کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 479
سوچیے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ کیا اس سے سمجھا جائے کہ معاذ اللہ رسول اللہ نے فریضہ ابلاغ دین میں اس قدر کوتاہی کی؟ ہماری تو اس تصور سے روح کانپتی ہے، لامحالہ اس سے اسی نتیجہ پر پہنچا جائے گا کہ خود رسول اللہ بھی اپنی احادیث کو جز و دین نہیں سمجھتے تھے، اس لیے انہوں نے اس کی ضرورت نہیں سمجھی کہ انہیں مرتب کر کے قرآن کی طرح لوح محفوظ کی شکل میں امت کو دیا جائے۔‘‘ (طلوع اسلام: شمارہ نمبر: 3، جلد: 3)
ساری تان اس چیز پر ٹوٹ رہی ہے کہ چونکہ احادیث کا مجموعہ لکھا نہیں گیا، اس لیے یہ حجت نہیں، حتی کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان سے جو فرماتے، اسے بھی دلیل کے طور پر نہیں بلکہ یونہی فرما دیتے۔ مخاطبین پر اس ارشاد گرامی کا ماننا ضروری نہ تھا۔ ﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ۚ﴾
دلیل کی معقولیت دوسری بات ہے، واقعہ کے لحاظ سے اتنا ضرور صحیح ہے کہ آج کل جب کہ حافظے خراب ہو رہے ہیں، تحریر یقیناً محفوظ ہے اور تحریر سے اعتماد بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ خود قرآن نے اخذ و اعطا کے معاملات میں لکھنے پر زور دیا ہے، [1] لیکن بحث اس میں ہے کہ آیا تحریر رد و قبول اور استناد و حجیت میں معیار کی حیثیت رکھتی ہے یا نہیں؟ ہماری حتمی رائے ہے کہ کتابت کو معیاری حیثیت نہیں دی جا سکتی۔
قوت حافظہ واقعات، حوادث اور اقوال کے ضبط کے لیے ایک قدرتی عطیہ ہے، جو فطرت انسانی کو ودیعت فرمایا گیا ہے۔ تحریری مستندات کا انحصار بھی بالآخر قوت حافظہ پر ہے، اگر قوت حافظہ ہی معطل یا مختل ہو جائے، تو قلم کی ساری ہوش مندیاں وہیں ختم ہو جائیں گی۔ تحریر میں ظن اور کتابت میں خلل سے کتابت کی افادی حیثیت کا انکار نہیں کیا جا سکتا، اسی طرح نسیان کے امکان سے قوت حافظہ پر بے اعتمادی نہیں کی جا سکتی، نہ کتابت میں ہی کوئی ایسا معجزہ ہے، جس کی وجہ سے انسان غلطی کے متعلق بالکل مطمئن ہو اور نہ حافظہ ہی کے متعلق ایسا دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔ سارا انحصار نسیان اور اغلاط کی کثرت پر ہے۔ اگر حافظہ کثیر الغلط ہو، اس کی روایت مقبول نہیں ہو گی، اور کاتب کثیر الغلط ہو، اس کی تحریر کا بھی یہی حال ہے۔ فی الجملہ غلطی سے کوئی بھی محفوظ نہیں، فطرت کا فیصلہ یہی ہے، یہ بھی محدثین کا اصول ہے۔ جو لوگ کتابت پر حفظ سے
[1] دیکھیں: سورة البقرة (282)