کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 478
امام زہری کے گرد و پیش ان کے گھر میں کتابیں ہوتی تھیں، ایک دن ان کی اہلیہ نے کہا کہ یہ کتابیں تین سوکنوں سے مجھ زیادہ دکھ دیتی ہیں! غالباً تمنا صاحب امام زہری کے متعلق ان کی اہلیہ سے زیادہ واقفیت کا دعویٰ نہیں کریں گے۔ ان حوالوں کے بعد اگر تمنا صاحب کا حوالہ کہیں مل بھی جائے، تو اس کا معنی یہی ہو گا کہ ان کے پاس کوئی ایسی کتاب نہ تھی، جسے انہوں نے تصنیف فرمایا ہو۔ یہ کوئی عیب نہیں، صحابہ اکثر اصحاب التصانیف نہیں تھے۔ اکثر علماء ایسے گزرے ہیں، جو جلالتِ قدر کے باوجود بحیثیت اصحاب التصانیف ان کا تذکرہ نہیں ملتا۔ امام زہری کا دور جمع و کتابت کا دور تو ہے، مگر تدوین کی طرف اس وقت توجہ زیادہ نہ تھی۔ 4۔ جمع حدیث اور تدوین حدیث آج تعلیم یافتہ طبقہ عموماً ضعفِ حفظ کا مریض ہے۔ یادداشت کا تمام تر انحصار نوٹوں اور ڈائریوں پر ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ قوت حفظ معطل ہونے کی وجہ سے روز بروز کمزور ہو رہی ہے۔ یہ مریض کا لشکر جب ڈائریاں اور نوٹس بغلوں میں دبائے سکولوں اور کالجوں سے نکلتا ہے، تو انہیں باور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ آیا قوت حافظہ ڈائری کا کام بھی دے سکتی ہے یا نہیں؟ یا حافظہ کے اعتماد پر سینکڑوں صفحات ازبر کیے جا سکتے ہیں؟ عربوں کے حافظوں کا تذکرہ ان کی نگاہوں میں صرف ایک افسانہ ہے۔ ہزارہا نام ازبر، لکھو کھہا اشعار کا ضبط ان کی نظر میں صرف ایک کہانی ہے۔ محدثین اور ائمہ رجال کی مساعی اور قوتِ حفظ کا تذکرہ ان کے لیے اور بھی مصیبت معلوم ہوتا ہے، کیونکہ ان کے ہاں ضبط اور یقین کے لیے کامیاب ذریعہ صرف قلم ہے اور بس! ہمارے اہل قرآن دوست بھی عموماً اسی ماحول کی پیداوار ہیں اور اسی گرد و پیش میں ان کی تربیت ہوئی ہے، اس لیے وہ یقین کرتے ہیں کہ حدیث کا کوئی مجموعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگرانی میں نہیں لکھوایا، اس لیے حدیث کا ضبط مشکوک ہے۔ اگر یہ حجت ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ضبط اور تحفظ کے لیے کوئی مجموعہ ضرور لکھواتے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ’’سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ احادیث دین کا آدھا حصہ تھیں، تو جس رسول نے دین کے دوسرے آدھے حصے کو اس اہتمام سے محفوظ کرا کے امت کو دیا تھا، کیا اس رسول کا یہ فریضہ نہ تھا کہ دین کے اس دوسرے جز کو بھی اسی طرح محفوظ کرا کے امت کو دیتے،