کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 477
[1]سے موجود ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’ہمارا خیال تھا کہ ہم نے زہری سے بہت کچھ پڑھا ہے، لیکن خلیفہ ولید بن یزید کی موت کے بعد زہری کی کتابوں کے کئی انبار جانوروں پر لدے ہوئے اٹھائے گئے۔‘‘ [2]1 (أيضاً: البدايه: 9/324)
یہ حوالہ تمنا صاحب کے خلاف ہےتذكره (ص: 103) کا ایک اور حوالہ بھی سن لیجیے۔ فرماتے ہیں:
’’كنا نطوف مع الزهري علي العلماء، ومعه الألواح والصحف‘‘ [3]2
’’ہم زہری کے ساتھ اہل علم کی خدمت میں حاضر ہوتے، ان کے پاس صحیفے اور تختیاں ہوتیں۔‘‘
ایک اور حوالہ بھی سن لیجیے۔ ابن خلکان فرماتے ہیں:
’’وكان إذا جلس في بيته وضع كتبه حوله فيشتغل بها عن كل شيء من أمور الدنيا فقالت له امرأته يوما: واللّٰه ! لهذه الكتب أشد علي من ثلاث ضرائر!‘‘ (جلد: 1/ ص: 451)
[1] قرۃ بن عبدالرحمٰن بن حیویل کا یہ قول تذكرة الحفاظ میں اگرچہ مکمل سند کے ساتھ مروی نہیں، لیکن تاريخ أبي زرعة (1/410) المعرفة والتاريخ (1/641) الكامل في الضعفاء (6/53) تاريخ دمشق (55/331) میں من طريق أبي مسهر ثنا يزيد بن السمط ثنا قرة بن عبدالرحمن – باسند مذکور ہے۔ اس سند کے بنیادی راوی ’’قرة بن عبدالرحمن بن حيويل‘‘ پر بحیثیت راوی حدیث جرح موجود ہے، لیکن امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ما أحد أعلم بالزهري من ابن حيوئيل‘‘
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس قول پر اعتراض کیا کہ زہری کے کبار تلامذہ: مالک، معمر، یونس وغیرہ زہری کی حدیث کا قرہ بن عبدالرحمٰن سے زیادہ علم رکھتے ہیں، تو اس کے جواب میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، امام اوزاعی رحمہ اللہ کے قول کا مطلب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ زہری کے حالات کا زیادہ علم رکھتے تھے: ’’فيظهر من هذه القصة أن مراد الأوزاعي أنه أعلم بحال الزهري من غيره لا فيما يزجع إلي ضبط الحديث، وهذا هو اللائق، واللّٰه أعلم‘‘ (تهذيب التهذيب: 8/333) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے قبل بعینہ یہی توجیہ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے بھی ذکر ہے۔ (تقدمة الجرح والتعديل، ص: 205)
[2] 1 نیز دیکھیں: طبقات ابن سعد (2/389) المعرفة والتاريخ (1/638) حلية الأولياء (3/361)
[3] 2 دیکھیں: جامع بيان العلم (1/155)