کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 476
مضامین پر اتنا لمبا اور پھر بے دلیل لکھتے ہیں کہ اس پر تنقید کرتے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ محترم تمنا صاحب اور ان کے رفقاء ائمہ حدیث سے کیا چاہتے ہیں؟ کیوں ناراض ہیں؟ اور پھر ایسے اوچھے ہتھیاروں سے کیوں حملہ آور ہوتے ہیں جن سے ان کا علم اور دیانت مشتبہ ہو رہے ہیں؟ ان پھونکوں سے تو یہ چراغ نہیں بجھیں گے۔ یہ روش یورپ کے مشککین کی ہے کہ وہ دور از کار احتمالات پیدا کر کے تشکیک کی راہ کھولتے ہیں۔ مذہبی و دینی معاملات میں ان کے دینی اکتشافات کی یہی پوزیشن ہے اور یہ راہ علم و دیانت سے بمراحل دور ہے۔ اگر فرصت ملی تو ان گزارشات کے آخر میں ان اوہام و تشکیکات کی تفصیل بیان کروں گا، جس سے ان شاء اللہ واضح ہو گا کہ تمنا صاحب کے یہ مضامین لوجہ اللہ نہیں لکھے گئے۔ امام زہری کے آباؤ اجداد کی اقامتِ حجاز تو آپ نے ذکر کی ہے، آخر وہ غزوہ بدر میں مشرکین کی طرف سے شریک ہوئے، تو اس وقت وہ اس مقابلہ کے لیے شام سے تو نہیں آئے تھے، ان کا قیام حجاز ہی میں ماننا پڑے گا۔ اس لیے تمنا صاحب کے اس فقرہ کی میں تصدیق کرتا ہوں کہ انہوں (زہری) نے وہاں (مدینہ) وفات پائی، نہ وہاں مدفون ہوئے اور امید رکھتا ہوں کہ وہ بھی انشراح سے اس امر کی تصدیق کریں گے کہ قیام بہرحال مدینہ طیبہ میں رہا۔ آٹھ سال سعید بن مسیّب کی خدمت اور 45 سال کی آمدورفت خود امام کا اپنا بیان ہے۔ [1] امام کی کتابیں: ’’امام زہری کے پاس کوئی کتاب نہ تھی۔‘‘ تمنا صاحب نے یہ فقرہ بحوالہ ’’تذكرة الحفاظ للذهبي‘‘ (2/106) لکھا ہے۔ تذكرة الحفاظ مطبوعہ حیدر آباد اس وقت میرے سامنے ہے، یہاں یہ حوالہ نہیں ہے۔ صفحہ (106) جلد (2) میں حافظ دارمی کا ترجمہ ہے، جس میں زہری کا نام تک نہیں، البتہ جلد اول کے صفحہ 106 پر امام زہری کا تذکرہ موجود ہے، وہاں تمنا صاحب کا حوالہ ناپید ہے، [2] البتہ اس کے خلاف ایک حوالہ حضرت معمر
[1] حلية الأولياء (3/362) المعرفة والتاريخ (1/636) سير أعلام النبلاء (5/535) [2] یہ حوالہ تذكرة الحفاظ (1/111) میں بضمن ترجمہ زہری بایں الفاظ موجود ہے: ’’لم يكن للزهري كتاب إلا كتاب فيه نسب قومه‘‘ ---