کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 474
تو قابل قبول ہوں گے۔ [1] اہل فن کے نزدیک حجاز کے علوم میں امام زہری سب سے زیادہ مستند ہیں۔ انہیں شامی تصور کیا جائے یا مدنی، بہرحال حجازی اور مدنی علوم میں انہیں مقام استناد حاصل ہے۔ یہی اصل تکلیف ہے جس کی نیابت مولانا تمنا فرماتے ہیں۔
مدینہ اور شام:
امام زہری رحمہ اللہ شام میں پیدا ہوئے، پونے تین ماہ میں قرآن عزیز پڑھا، اس کے بعد علوم سنت کی طرف توجہ فرمائی، اس لیے مدینہ کی اقامت کو مفید سمجھا۔ سعید بن المسیب کی خدمت میں آٹھ سال ٹھہرے اور حدیث اور اس کے متعلقات حاصل فرماتے رہے، چنانچہ ایک دفعہ قحط پڑا، امام نے محسوس کیا کہ اس کا اثر ان کے خاندان پر شام میں بھی ضرور ہو گا، شام پہنچے، خلیفہ عبدالملک کو ایک مسئلہ کے متعلق تشویش تھی، سعید بن مسیّب سے حضرت عمر کا فیصلہ سن چکے تھے، مگر اب حافظہ میں مستحضر نہ تھا۔ امام زہری، سعید بن مسیّب کے علوم اور ادبیات میں کافی مہارت رکھتے تھے۔ انہیں عبدالملک کے پاس حاضر کیا گیا۔ امام زہری کی ملاقات سے عبدالملک کو تسکین ہو گئی۔ عبدالملک ان کی ذہانت اور استحضار سے خوش ہوئے اور ان کے خاندان کا مستقل وظیفہ مقرر کر دیا۔ [2] امام زہری کا تشیع بقول مولانا عمادی شاید اس معمولی وظیفہ کا اثر ہو گا! ﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ ۚ﴾ (الکہف: 5)
اس کے بعد امام زہری قیام مدینہ کے باوجود شام آتے رہے اور طلب علم میں مشغول رہے۔ خود امام زہری کی زبانی سنیے، فرماتے ہیں:
’’فقضيٰ ديني و أمرلي بجائزة، وقال: اطلب العلم، فإني أرٰي لك عينا حافظة، وقلبا ذكيا، فرجعت إلي المدينة أطلب العلم وأسمعه‘‘ (البداية: 9/341)
یعنی عبدالملک نے میرا قرض ادا کر دیا، مزید وظیفہ عطا فرمایا اور کہا کہ علم پڑھو، تمہاری آنکھوں سے حفظ کے آثار نمایاں ہیں اور تم بہت ذہین معلوم ہوتے ہو، چنانچہ میں
[1] دیکھیں: الكامل في الضعفاء لابن عدي (3/264) الثقات لابن حبان (5/418) تهذيب الكمال (28/471)
[2] طبقات ابن سعد (2/389) المعرفة والتاريخ (1/620) سير أعلام النبلاء (5/236)