کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 473
کوئی دلیل نہیں ملی کہ امام کی جائیداد مقام ’’أيله‘‘ میں تھی اور یہ کوئی پختہ دلیل نہیں۔ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی جائیداد اسلامی قلمرو کے تمام شہروں میں تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جائیداد بھی مختلف شہروں میں تھی۔ آج کل اقامت کہیں ہوتی ہے اور صاحبِ ثروت جائیداد دوسری جگہ خریدتے ہیں۔ اقامت اور جائیداد دونوں کی مصالح مختلف ہوتی ہیں۔ بہت سے دیہاتی امراء کی جائیداد بڑے بڑے شہروں میں ہوتی ہے اور عموماً شہری امراء مربع جات اور زمین دیہات میں خریدتے ہیں، اس سے وطنیت پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ بحث کا وقت: اس بحث کے لیے مناسب وقت قریب کی صدیوں ہی میں ہو سکتا ہے۔ اتنی صدیوں کے بعد اس تحقیق کے لیے اچھے نتائج کی توقع مشکل ہے۔ پھر اس بحث کا حق امام زہری رحمہ اللہ کے رفقاء اور صدیوں بعد محض قرائن اور مفروضات کی بنا پر صحیح فیصلہ پر نہیں پہنچ سکتے، خصوصاً جب کہ فیصلہ پہلے کر لیا گیا ہو اور دلائل کی تلاش بعد میں حسب ضرورت کی گئی ہو۔ تمنا صاحب کتنا ہی دعویٰ کریں، مگر وہ صاحبِ فن نہیں۔ ان کا شمار بہرحال فن حدیث کے مخالفین ہی میں ہو گا، اس لیے ایسے دعوے جھوٹ اور بڑی بات ہی کے مصداق ہوں گے! ائمہ فن کا فیصلہ: ائمہ فن اور علماءِ موالید نے امام زہری کے شام سے تعلقات کا ذکر فرمایا ہے۔ ان کی جائیداد کا تذکرہ بھی شام میں معلوم ہے، اس کے باوجود ان کی مدنیت پر متفق ہیں۔ علامہ جزائری ’’توجيه النظر‘‘ (نوع: 49) میں تابعین سے مشاہیر ائمہ حدیث کے ذکر میں فرماتے ہیں: ’’فمنهم من أهل المدينة: محمد بن مسلم الزهري‘‘[1](صفحہ: 199) حافظ سلیمان بن موسیٰ فرماتے ہیں کہ الجزیرہ کا علم میمون بن مہران کی معرفت اور بصرہ کا علم حسن بصری کی معرفت اور حجاز کے علوم امام زہری کے توسط سے اور شام کے علم بواسطہ مکحول اگر ملیں،
[1] توجيه النظر (1/468)