کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 472
ترجیح دیتے تھے۔ ارشاد نبوی ((وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ)) [1]نے مدینہ کی اقامت کو اور بھی قابل رشک بنا دیا۔
امام زہری رحمہ اللہ کی جائیداد شام میں تھی اور زیادہ تر اقامت مدینہ میں رکھتے تھے۔ کاروباری سلسلہ میں امام کی آمدورفت کا تعلق شام سے بھی رہا۔ بعض حلقوں نے امام زہری رحمہ اللہ کی مدینہ میں اقامت کا انکار کیا ہے:
’’غرض نہ مدینہ طیبہ کبھی ان کا یا ان کے آباؤ اجداد کا وطن رہا، نہ انہوں نے وہاں وفات پائی، نہ ہی وہاں دفن ہوئے۔‘‘ (طلوع اسلام: جلد: 3/ شمارہ: 9)
اگر وطنیت کے لیے آباؤ اجداد کا قیام یا وفات اور وہاں دفن ہونا ضروری ہے، تو ہم اعتراف کرتے ہیں کہ زہری مدنی نہ تھے۔ واقعی یہ تینوں شرطیں امام زہری میں نہیں پائی گئیں، لیکن شاید ان شرائط سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مدنی کہنا درست نہ ہو، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آباؤ اجداد نے مدینہ کی اقامت کبھی اختیار نہیں فرمائی۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی مدنی کہنا درست نہیں ہو گا، کیونکہ ان کی وفات کوفہ میں ہوئی اور دفن بھی مدینہ میں نہیں ہو سکے۔ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ قسطنطنیہ میں شہید ہوئے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کربلا میں شہید ہوئے۔ ان سے کسی کو بھی مدینہ کا باشندہ کہنا، ان شرائط کے مطابق درست نہ ہو گا۔ جدید تحقیق ’’قابل تحسین‘‘ ہے!
حقیقت حال:
یہ ہے کہ یہ عبارت محض ایک مغالطہ ہے اور حدیث اور اہل حدیث اور ائمہ حدیث کے استخفاف کے لیے ایک ’’ہوش مندانہ‘‘ حیلہ ہے۔ وطنیت کے لیے اس قدر کافی ہے کہ آپ چند سال کسی جگہ اقامت فرمائیں۔ محدثین چار سال یکجا اقامت کو نسبت اور وطنیت کے لیے کافی سمجھتے ہیں، جیسے کتب اصول حدیث میں اس کی صراحت کر دی گئی ہے۔ [2]
امام زہری رحمہ اللہ کی مدینہ میں اقامت سے انکار کے لیے اس طویل مقالہ میں اس کے سوا
[1] صحيح البخاري، أبواب فضائل المدينة، باب من رغب عن المدينة، رقم الحديث (1776) صحيح مسلم، كتاب الحج، باب الترغيب في المدينة عند فتح الأمصار، رقم الحديث (1388)
[2] تدريب الراوي (2/385)