کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 47
رہے ہیں، اس سلسلے کی تازہ کڑی ان کی یہ نئی دریافت ہے کہ قرآن و حدیث میں مذکور واقعہ افک کی کوئی حقیقت نہیں، بلکہ معاذ اللہ وہ ایک افسانہ ہے۔ احقر ایک دن ایک بک سٹال پر پڑے ہوئے رسالوں کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ فرقہ پرویزیہ کے آرگن ’’طلوع اسلام‘‘ لاہور پر نظر پڑی، تو اس میں یہ ’’افسانوی‘‘ مضمون نظر آیا۔ بفجوائے ’’لكل فرعون موسيٰ‘‘ احقر نے وہ پرچہ مخدومی مولانا محمد اسماعیل صاحب امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث مغربی پاکستان کی خدمت میں پیش کر کے عرض کیا کہ حضرت! اپنی گوناگوں مصروفیتوں اور قسما قسم کی ذمہ داریوں سے کچھ وقت نکال کر ’’تمنائی اپچ‘‘ پر تنقیدی مقالہ تحریر فرما دیجیے! حضرت ممدوح نے ازراہ نوازش اس درخواست کو شرف قبولیت بخشا اور چند دنوں میں یہ علمی اور تحقیقی مقالہ تحریر فرما دیا۔‘‘ (الاعتصام، 26 فروری 1965ء) سب سے پہلے یہ مضمون ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ (26 فروری 1965ء) کی پانچ اقساط میں شائع ہوا اور بعد ازاں اس تحقیقی مقالہ کے محرک اول مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کے حسب خواہش محترم ضیاء اللہ کھوکھر صاحب نے اسے ’’واقعہ افک‘‘ کے نام سے 1982ء میں ادارہ ندوۃ المحدثین کے زیر اہتمام کتابی شکل میں طبع کیا۔ جزاهم اللّٰه خير الجزاء (12) مسئلہ درایت و فقہ راوی کا تاریخی و تحقیقی جائزہ: یہ مقالہ دراصل مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی رحمہ اللہ کی کتاب ’’حسن البيان فيما في سيرة النعمان‘‘ پر لکھا گیا مقدمہ ہے، جس میں حضرت سلفی رحمہ اللہ نے درایت و فقاہتِ راوی کی آڑ میں احادیث نبویہ کے استخفاف و استحصال کا جائزہ لیا ہے۔ قبل ازیں یہ مقدمہ بنارس انڈیا سے علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اور مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے مقالات پر مشتمل کتاب ’’حجیت حدیث‘‘ میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ یہ مقدمہ حضرت سلفی رحمہ اللہ نے 31 جنوری 1966ء کو تحریر کیا تھا۔ (13) مقدمه نصرة الباري في بيان صحة البخاري: یہ مضمون بھی دراصل حضرت سلفی رحمہ اللہ کا ایک مقدمہ ہے، جو انہوں نے مولانا عبدالرؤف