کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 466
پھانسیوں اور عبور دریا شور کی سنگین سزاؤں سے ان لوگوں کو بھی اگر بلا وجہ اور بغض کی راہ سے دق نہ کیا جاتا، تو شاید یہ بھی انگریز کے فاتحانہ مظالم فراموش کر جاتے۔ علماءِ دیوبند جو توحید میں اشتراک کے علاوہ ابتدا سے اس دینی جنگ میں بھی اہل توحید اور اہل حدیث کے ساتھ دوش بدوش شریک رہے، بالآخر دینی تعلیم کے حصار میں محصور ہو گئے۔ بارہویں صدی کے اواخر اور تیرہویں کے آغاز میں صرف اہلحدیث ہی اس آگ کو سلگاتے رہے، باقی اکثریت انگریز کے متعلق مطمئن ہو گئی۔ 1857ء کی جنگ کے بعد جب انگریز نے فتح کی بدمستی سے نئے مظالم کا دروازہ کھولا، تو پھر سے ملک میں بغاوت، لاقانونی اور ہنگامے تیز ہو گئے۔ اس لیے میں تمنا صاحب کے اس خیال کو واقعات کے بالکل خلاف سمجھتا ہوں کہ عجمی انتقام اتنا دیرپا ثابت ہوا کہ انہوں نے اسلامی تہذیب اور اسلامی علوم سیکھنے کے بعد بھی عداوت اور دشمنی کو قائم رکھا اور اسی جذبہ سے حدیثیں بنائیں۔ شیعہ، سنی، خوارج، یہ مختلف نظریے تھے۔ اپنے ائمہ اور بزرگوں کی محبت میں یقیناً حدیثیں وضع کی گئیں، اس دینی مخالفت کے لیے ایک دوسرے کے خلاف حدیثیں بنائی گئیں۔ یہ اہل مذاہب کی کمزوری تھی، اس میں دیرینہ انتقام کا کوئی دخل نہ تھا۔ ہمارے دوستوں کی عادت: ادارہ ’’طلوع اسلام‘‘ اور اس قسم کے حضرات کی عادت ہے کہ وہ مسئلہ یا نظریہ پہلے بناتے ہیں، پھر اس کے لیے دلائل کی تلاش میں نکلتے ہیں، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں دلیل سازی کے لیے پریشان ہونا پڑتا ہے، پھر بھی بتیجہ حسب منشا نہیں نکلتا، تو دلائل کو نچوڑ کر اپنا مطلب کشید کرنا شروع کر دیتے ہیں، اسی وجہ سے ان کے مبادی اور نتائج دونوں غلط ہوتے ہیں۔ تقریر کے تسلسل سے عامی ذہن کو تھوڑی دیر ضرور غلطی میں مبتلا رکھا جا سکتا ہے، لیکن دور اندیش نظریں اس تاروپود کی کمزوری کو ضرور بھانپ جاتی ہیں۔ ان بزرگوں کی تقریریں اور مضامین بلا ضرورت لمبے ہونے کے علاوہ انتشارِ ذہن کا موجب ہوتے ہیں، لیکن دلائل کا ذخیرہ ان میں ناپید ہوتا ہے۔ تمنا صاحب کا پیش نظر مضمون اس کی زندہ دلیل ہے۔ مضمون کا کوئی موضوع نہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ذہن میں جو کچھ تھا، قلم نے اگل دیا ہے۔ مجھے خود اسی لیے آپ کے ارشادات لکھتے