کتاب: مقالات حدیث - صفحہ 465
سے زیادہ الفت تھی۔ تاریخ میں یہ امر واضح ہے کہ جس فاتح سے عوام کو سہولت ملے اور اس کا برتاؤ ان کی آزادی میں بلا وجہ حائل نہ ہو، وہ دیر تک اس کے خلاف بغض و عداوت کی پرورش نہ کر سکتے۔ بغاوت فطرت کی آواز نہیں، لیکن آزادی انسانیت کا فطری حق ہے، اس لیے جو حکومت انسانیت کے اس حق پر دست درازی نہ کرے، انسانیت اس کے خلاف بغاوت کے غیر فطری جذبہ کا کبھی استعمال نہیں کرتی۔ مسلمان فاتحین کے ابتدائی دور میں انسانیت کے ساتھ انصاف کا جذبہ پوری قوت سے پایا جاتا تھا۔ وہ رعیت کے جائز حقوق کا پورا احترام کرتے تھے، اس لیے یہ خیال قطعی غلط اور بے دلیل ہے کہ عجمی عناصر نے حدیث سازی اور تخلیقِ روایات کے کارخانے انتقامی جذبات کی وجہ سے جاری کیے اور اس جذبہ کے ماتحت موضوعات کا ایک ذخیرہ مہیا کر دیا گیا۔ مغل حکومت کا آخری دور اور انگریز کی فتوحات کے اسباب و نتائج کسی صاحب بصیرت سے پوشیدہ نہیں۔ مغل حکومت مسلمان تھی اور ہندوستان میں مسلمانوں کی خاصی تعداد موجود تھی۔ انگریز غیر مسلم تھا، لیکن فتح کے بعد انگریز کی مخالفت کہاں تک زندہ رہ سکی؟ سرسید احمد صاحب ایسے دور اندیش آدمی انگریز کی غلامی کا وعظ کہنے لگے، کالج تعمیر کیا، انگریز کے لیے مشینیں تیار ہوئیں، پورے ملک میں ہوا کا رخ بدل گیا۔ دینی مدارس اور قومی مدارس میں جو نمایاں فرق پایا گیا، وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پورے ملک نے انگریزی بودوباش کو اپنایا، حجامت کی تراش خراش تک انگریز بہادر کے اوضاع و اطوار پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے گئے۔ صرف اس لیے کہ انگریز نے بظاہر کوئی دکھ نہیں دیا، بلکہ عوام کو ابتداء میں کچھ سہولتیں میسر آئیں، ملازمتیں ملیں۔ ریل موٹر ایسی مفید ایجادات نے ملک کی رائے پر اچھا اثر ڈالا۔ صرف ایک جماعت: اس سارے دار الامن میں صرف اہل توحید کی ایک جماعت تھی، جو انگریز کے خلاف جذبہ پنہاں کی دیر تک پرورش کر سکی۔ ڈاکٹر ہنڑ کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک ناسور تھا، جو کافی دیر تک انگریزی حکومت کے جوڑوں سے رستا رہا اور یہ دیوانوں کی کمپنی انگریز اور اس کے نظام پر مطمئن نہ ہو سکی۔ عوام نے ان لوگوں کو وہابیت کی تہمت لگا کر انگریز کے سامنے اکیلا چھوڑ دیا۔